ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
دے کر چھِیننے والے تیری دین کو کیا ٹھہراؤں
میں سر سبز شجر جو پل پل اِیندھن بنتا جاؤں
تیری سماعت کے در پر ہے بس یہ دستک میری
چندرماں ایسا گھٹتا بڑھتا میں راتیں چمکاؤں
اور بھی کِھل کِھل اُٹھیں میرے ہونٹ گُلابوں جیسے
حرفوں حرفوں اور بھی چیت رُتوں تک میں مسکاؤں
لہرائیں، رنگ لائیں میرے دل کی سب آشائیں
میں نے جو بِیجائیاں کی ہیں،اُن کی فصل اُٹھاؤں
ان کی مہک، ان کی شیرینی، لُطف دِکھائیں اپنے
پُھولنے پھلنے والی اپنی شاخوں پر اِتراؤں
اِیقان و فیضان سے میرے جو سرچشمہ پُھوٹا
اُس کی نم کی یاوری سے اِک اور جنم میں پاؤں
جس کا اُنس ہے، جس کی قرابت، ماجِد! دم خَم میرا
اورفرازوں، اُس سے اپنے قُرب کی پینگ جُھلاؤں
ماجد صدیقی