تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

پانی

کچھ کرے گر تو جاودانی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 200
عمر فانی ہے آنی جانی ہے
کچھ کرے گر تو جاودانی ہے
غیض میں اور، التفات میں اور
وہ کہ ہے آگ، وہ کہ پانی ہے
بس میں مشکل سے آئے مچھلی سا
خُو یہ اُس شوخ کی پرانی ہے
جیسے آب رواں پہ گُل تَیریں
چال میں اُس کی وہ روانی ہے
ظرف جس نے کشادہ تر رکھا
ہاں وہ انسانیت کا بانی ہے
نسل اُس کی فزوں ہوئی کیسے
یہ بھی آدم کی اک کہانی ہے
ہاں کبھی جانبِ نشیب نہ جا
تُو نے ماجد کہاں کی ٹھانی ہے
ماجد صدیقی

یہ ڈر ہے ڈوب نہ جائے صدائے انسانی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
دُھوئیں کی دُھول کی ہر سمت ہے وُہ طغیانی
یہ ڈر ہے ڈوب نہ جائے صدائے انسانی
بہ دوشِ ابر بھی کب اِس قدر فراواں ہے
رُکا ہوا پسِ مژگاں ہے جس قدر پانی
وفا و قرض کے مکر و ریا کے پتّوں سے
چھپائے آج بھی انسان تن کی عُریانی
یہاں ہے جو بھی شہِ وقت، سوچتا ہے یہی
نہیں ہے اُس کا تہِ آسماں کوئی ثانی
غزل سرا ہوں کہ ماجدؔ طوالتِ شب میں
ادا کرے ہے یہی فرض رات کی رانی
ماجد صدیقی

جس کا سخن ہو اُس کو وہ، لاثانی لگتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
نقش بنا لے جو بھی خود کو مانی لگتا ہے
جس کا سخن ہو اُس کو وہ، لاثانی لگتا ہے
کم کم ایسا ہوتا ہے جب، آگ میں پھول کھلیں
معجزہ ایسا ہو تو وہ، یزدانی لگتا ہے
ہم تم سارے، خانہ بر دوشوں سے ہیں جن کو
جو موسم بھی آئے وہ، بُحرانی لگتا ہے
ہم کہ جنہیں حبسِ بے جا میں رکھا گیا، ہمیں
اپنا سُندر دیس بھی، کالا پانی لگتا ہے
جنگ و جدال کو گردانیں بس کھیل تماشا وُہ
فرعونوں کو اپنا بدن کب، فانی لگتا ہے
آج بھی ماجدؔ انسانوں سے انسانوں کا چلن
حیوانی لگتا ہے، غیر انسانی لگتا ہے
ماجد صدیقی

ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
منظر کی تزئین میں ’مانی‘ جیسا ہے
ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے
آنکھ میں اُس کے لبوں کا وداعی سنّاٹا
ہاتھ میں مُندری کی سی نشانی جیسا ہے
رہبروں کے غبارے پھٹنے پر اپنا
عالم بّچوں کی حیرانی جیسا ہے
جس کی قبر کو ڈھانپنے تاج محل اُبھرے
وہ بے مثل ہے کون اُس رانی جیسا ہے
ہونٹ سِلے ہیں گویا بل بل ماتھے کا
تن میں ابلتا خوں طغیانی جیسا ہے
قّصہ اپنے ہاں کے سبھی منصوبوں کا
طوطے اور مَینا کی کہانی جیسا ہے
اُس چنچل کا قرب ہمیشہ کب حاصل
پل دو پل کا ساتھ جوانی جیسا ہے
اِس قطرے میں جانے الاؤ کیا کیا ہیں
آنکھ میں آنسو یوں تو پانی جیسا ہے
ماجدؔ تیرا فکر امینِ توانائی
اور سخن دریا کی روانی جیسا ہے
ماجد صدیقی

اُنہی لفظوں کی نگرانی بہت ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
جنوں کی جن میں تابانی بہت ہے
اُنہی لفظوں کی نگرانی بہت ہے
خرد کی سلطنت کیسی کہ اِس پر
اِسی اک دل سا زندانی بہت ہے
انا سے دست برداری جہاں ہو
وہاں جینے میں آسانی بہت ہے
ابھی مشکل ہے صحرا سے نکلنا
کہ چھالوں میں ابھی پانی بہت ہے
طلب کا دشت ہے اور بے دلی کی
مزاجوں میں فراوانی بہت ہے
نکھرتی ہے بڑی مُدّت میں ماجدؔ!
زمیں چہرے کی بارانی بہت ہے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑