تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

پاتا

مجھ بچّے سے خاص دُعا کرواتا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
باپ مرا بھی، بے بس جب ہو جاتا تھا
مجھ بچّے سے خاص دُعا کرواتا تھا
دبتی دیکھ کے گھر میں چیخیں بچّوں کی
مہماں بھی کچھ کھانے سے گھبراتا تھا
میرے بھی بالک ہیں تمہارے جیسے ہی
ریڑھی والا نت یہ ہانک لگاتا تھا
مُنّا اپنی ماتا جی کی شفقت کا
غالب حصّہ نوکر ہی سے پاتا تھا
ٹھیکیدار نجانے کیوں ہر افسر کی
سالگرہ کی دیگیں خود پکواتا تھا
گھر پر ہی ملنے ہر اچّھے سائل سے
صاحب اکثر دیر سے دفتر جاتا تھا
اُس کو بھی اغراض نے گھیرا تھا شاید
سچ کہتے ماجدؔ بھی کچھ ہکلاتا تھا
ماجد صدیقی

سِفلوں سے پالا پڑتا ہے راز یہ تب کُھل پاتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
کُتا آنکھیں کب دکھلاتا ہے کب دُم لہراتا ہے
سِفلوں سے پالا پڑتا ہے راز یہ تب کُھل پاتا ہے
خلق سے بھی کھنچتا ہے آئینے سے بھی کتراتا ہے
جس کے دل میں چور ہو خود سے بھی کم آنکھ ملاتا ہے
جویائے تعبیر رہے وہ خواب میں قامتِ بالا کی
بَونے کی یہ خُو ہے سوتے میں بھی وہ اِٹھلاتا ہے
اِس سے ہٹ کر کم کم ہو، ہوتا ہے اکثر ایسا ہی
باپ نے جو جَھک ماری ہو بیٹا بھی اسے دُہراتا ہے
جس کوتاہ نظر کو بھی احساس ہو کمتر ہونے کا
برتر پر چھا جانے کو وہ اور ہی طیش دِکھاتا ہے
خاک کو دریا دل ہو کر جب سرمۂ چشم بنایا تھا
ماجدؔ جانے وہ لمحہ کیوں رہ رہ کر یاد آتا ہے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑