ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
بیٹیاں دھن ہے پرایا اِنہیں گھر جانا ہے
شاخ پر کِھل کے گلابوں نے بکھر جانا ہے
ہم کہ ہیں باغ میں پت جھڑ کے بکھرتے پتّے
کون یہ جانتا ہے کس کو کدھر جانا ہے
ڈھل بھی سکتا ہے جو سورج ہے سروں پر سُکھ کا
کانپ کانپ اُٹھنا ہے،یہ سوچ کے ڈر جانا ہے
گرد ہی لکھی ہے پیڑوں کے نصیبوں میں جنہیں
پل دو پل موسمِ باراں میں نکھر جانا ہے
آخرِ کار دکھائی نہ وُہ دے بُھوت ہمیں
ہم نے جس شخص کو رستے کا شجر جانا ہے
ماجد صدیقی