ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 199
اُٹھتا شباب اور فضا لُطفِ نُورکی
ماجد بدن تھا اُس کا کہ چھاگل سرور کی
جس کی چھنک دھنک ہمیں مدہوش کر گئی
اور صبر یہ کہ ہم نے وہ چُوڑی نہ چُور کی
شہکار اِک خدا کا تھا، مل کر جسے لگا
جیسے وہ کیفیت تھی کسی اَوجِ طُور کی
فتنہ زمیں پہ ہے کہ خرابی فلک پہ ہے
بدلی لگیں ادائیں سحر سے طیور کی
کچھ اور ہم سے ہو نہ سکا یا بھلے ہُوا
دعویٰ ہے یہ کہ ہم نے محّبت ضرور کی
تب سے رہا میں اگلے سَموں ہی کا منتظر
دیکھی ہے شکل جب سے درختوں کے بُور کی
خود رَو ہے جس کو دیکھیے، درس اُس سے کون لے
ابلیس کو سزا جو ملی تھی غرور کی
اِک اِک ادا ہے آپ کی ماجد! پسندِ دہر
پر شاعری پسند نہیں ہے حضور کی
ماجد صدیقی