تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

نقشہ

بات نہیں دوچار برس کی نصف صدی کا قصّہ ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 223
ماجد کا بھی حفیظ سا جو تخلیق فن میں حصہ ہے
بات نہیں دوچار برس کی نصف صدی کا قصّہ ہے
جانے کیوں آغاز سے ہی لگ جائے اِسے اپنوں کی نظر
ماں اور باپ کا باہم رشتہ پیار ایثار کا رشتہ ہے
جیتے جی بھی کچھ کچھ بیبیاں رکھیں اپنے تاج محل
احمدی اور من موہن کے گھر کا بھی اُدھر اک نقشہ ہے
میڈیا کی ساری بدخبری سچّی ہو یہ ناممکن
حزبِ مخالف کے کردار کا بھی کچھ اِس میں شوشہ ہے
جس کے عوض مختاروں سے پینچوں نے عیب ہیں چھُپوائے
پٹواری کے علم میں اب بھی جانے کیا کیا رقبہ ہے
پہلے بھی اپنایا کیے ہیں جو جو تخت ہِلانے کو
پاس ابھی جمہوری سرداروں کے کیا کیا نسخہ ہے
غراہٹ میں چیتوں کی جیسے ہو سامنا جنگل کا
ذہنوں ذہنوں کرب و بلا کا کچھ ایسا ہی نقشہ ہے
ماجد صدیقی

سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
کاش در آتا ہمیں ایسا بھی اِک لمحہ کوئی
سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی
ایک مدّت سے یہی نسبت ہے فرشِ خاک سے
ڈولتا جس طرح سطحِ آب پر تختہ کوئی
چاہتوں سے یہ روایت بھی کبھی کی چھن چکی
بام پر بیٹھا نہیں کرتا ہے اب کّوا کوئی
زندگی کر دے گی پیدا پھر کوئی رستے کا سانپ
سامنے آیا بھی اِس لُڈّو کا گر زینہ کوئی
ہو کے رہ جاتا ہوں کیوں غرقِ تہِ پاتال میں
جب کبھی جھڑتا ہے نکھری شاخ سے پتّا کوئی
ہم ہیں اور ماجدؔ تمّنا کا طلسمی غار ہے
ظاہراً باہر نکلنے کا نہیں رستہ کوئی
ماجد صدیقی

رُک گیا ہے وہی رستہ میرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
تھا جو مشکل کا مداوا میرا
رُک گیا ہے وہی رستہ میرا
جُرعہِ غم ہے مجھے جُرعۂ مے
ٹوٹتا ہی نہیں نشّہ میرا
خُوب سُلگائی دبی آگ مری
حال پوچھا ہے یہ اچّھا میرا
خشک پتّوں سا وہ بچھڑا مجھ سے
دیکھ کر رنگ بدلتا میرا
عرش اور فرش ملے ہیں باہم
ہے عجب گھر کا یہ نقشہ میرا
مُسکراہٹ مرا غازہ ہی نہ ہو
دیکھئے غور سے چہرہ میرا
ایک باطن بھی ہے ہر ظاہر کا
کیجئے یوں نہ تماشا میرا
دفعتاً جیسے خُدا بن بیٹھا
دیکھ کر ہاتھ وہ پھیلا میرا
امتحاں میں مرے پرچے خالی
اور بڑا سب سے ہے بستہ میرا
چور جو دل میں چُھپا تھا ماجدؔ
کر گیا ہے وہ صفایا میرا
ماجد صدیقی

سمجھتی ہے یہ نکتہ ساری دُنیا، ہم نہیں کہتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
تمہارے خُلق میں فتنے ہیں کیا کیا، ہم نہیں کہتے
سمجھتی ہے یہ نکتہ ساری دُنیا، ہم نہیں کہتے
ہوئے ہیں زرد پتے لفظ کیا کیا کچھ، نہ وعدوں کے
تمہاری شاخِ لب کا ہے یہ خاصا، ہم نہیں کہتے
نہیں زیبا بڑوں کو کاٹنا ڈوریں پتنگوں کی
چھتوں پر ہے، مگر ایسا ہی نقشہ، ہم نہیں کہتے
نظر آتا ہے، چھّتا خیر کا لپٹا ہوا شر میں
کہو کیسا ہے یہ طُرفہ تماشا، ہم نہیں کہتے
کسی غنچے کو بھی، مہلت ملے ہرگز نہ کھلنے کی
وطیرہ ہے یہ ماجدؔ، حبسِ شب کا، ہم نہیں کہتے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑