تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

نشاں

آنکھوں میں بندھا لاگے ہے ماجد کی سماں اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 188
دن خوب بھی آنے کو ہیں گویا کہ یہاں اور
آنکھوں میں بندھا لاگے ہے ماجد کی سماں اور
پلّو کسی بیوہ کا، بکھرتی کوئی دھجّی
ہاتھوں میں غریبوں کے لہکتے ہیں نشاں اور
لیتے ہوئے لگتی ہے نشانہ مرے دل کا
چہرے پہ مری قوسِ قزح کے ہے کماں اور
راتوں میں جھلکتے ہیں جو دُولہوں دُلہنوں کے
کچھ روز سے ہیں ذہن میں اپنے بھی گماں اور
یہ حزبِ مخالف ہے کہ انبوہِ حریصاں
گویائی سے اپنی جو کرے اپنا زیاں اور
بجلی جو گئی ہے تو غزل ہونے لگی ہے
’رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور،
یاور ہی سے ممکن ہے جو ہو پائے کبھی تو
ماجد تری غزلوں سی غزل کوئی کہاں اور
ماجد صدیقی

اور ابھی دکھائیگا زور آسماں اپنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 166
برق و رعد کے ہاتھوں باندھ کر سماں اپنا
اور ابھی دکھائیگا زور آسماں اپنا
دیکھ لو، پُھنکا آخر، کب تلک بچا رہتا
زد پہ سازشوں کی تھا یہ جو آشیاں اپنا
آنکھ آنکھ اُترا ہے زور ژالہ باری کا
کھیتیاں اُجاڑ اپنی، گاؤں بے نشاں اپنا
خود نہ اُس سے کہہ پائے گر تو اُس پہ کیا کُھلتا
رہ گیا وہ ہکلاتا تھا جو ترجماں اپنا
سچ کہیں تو نِت کا ہے المیہ ہمارا یہ
گھر کے راج پر جھپٹے ہے جو پاسباں اپنا
وہ بھی دل میں رکھتی تھیں ساجنا ہمیں سا جو
کرب وُہ نہ کہہ پائیں ہم سے، تتلیاں اپنا
ماں نے جو بھی چاہا تھا ہم نے کر دکھایاہے
فیضِ عزم سے ماجد! نطق ضَو فشاں اپنا
ماجد صدیقی

اور دہشت کا ہے نشاں جس کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 111
تیر اس کا ہے، ہے کماں جس کی
اور دہشت کا ہے نشاں جس کی
اُس سے ڈریئے کہ باؤلا ہے وہ
بدزبانی ہوئی زباں جس کی
وہ بھی انسان ہے ہمیں جیسا
ہے پہنچ تا بہ آسماں جس کی
جانے کس دن نہ مُڑ کے وہ آئے
راہ دیکھے ہے آشیاں جس کی
خوب در خوب نت جُوا کھیلے
بیٹیاں ہو چلیں جواں جس کی
خود کو ٹھہرائے شاہِ کرب و بلا
نہر ہے دشت میں رواں جس کی
ہاں وہ ماجدہے اہلِ دنیا سے
خُوبیاں ہیں ابھی نہاں جس کی
ماجد صدیقی

درپیش ہیں اِس دل کو زیاں اور طرح کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
رکھتا ہے کرم پر بھی گماں اور طرح کے
درپیش ہیں اِس دل کو زیاں اور طرح کے
اس دشتِ طلب میں کہ بگولے ہی جہاں ہیں
آتے ہیں نظر سروِ رواں اور طرح کے
تھا پیڑ جہاں قبر سی کھائی ہے وہاں اَب
سیلاب نے چھوڑے ہیں نشاں اور طرح کے
دل کا بھی کہا، خوف سے کٹنے کے نہ مانے
کرتی ہے ادا لفظ، زباں اور طرح کے
لگتا ہے کہ جس ہاتھ میں اَب کے یہ تنی ہے
دکھلائے کمالات کماں اور طرح کے
ہم لوگ فقط آہ بہ لب اور ہیں ماجدؔ
دربار میں آدابِ شہاں اور طرح کے
ماجد صدیقی

جو برگ ہے پہلو میں لئے خوفِ خزاں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
پیڑوں میں بھی پہلی سی طراوت وُہ کہاں ہے
جو برگ ہے پہلو میں لئے خوفِ خزاں ہے
مت پوچھ کہ ہے کیسے ستاروں سے مرتّب
آنکھوں کے اُفق پر جو سجی کاہکشاں ہے
سیلاب سا منظر ہے نظر جائے جدھر بھی
گھیراؤ میں موجوں کے ہے جو شخص جہاں ہے
اُس برگ سی تازہ ہے تمّنائے بقا بھی
جو ٹُوٹ کے ٹہنی سے سرِآب، رواں ہے
رنگین ہے صدیوں سے جو انساں کے لہو سے
ہر ہاتھ میں کیسا یہ تصادم کا نشاں ہے
ماجد صدیقی

ہر قدم پر ہیں کیا کیا نئی تتلیاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
خواہش لمس میں جن کے جاتی ہے جاں
ہر قدم پر ہیں کیا کیا نئی تتلیاں
اے ہوا! بارآور ہوئی ہٹ تِری
لے اُڑا لے گلِ زرد کی پتیاں
صحنِ گلشن میں گرداں ہیں جو چار سُو
جانے کِن عہد ناموں کی ہیں دھجیاں
پُوچھتے کیا ہو تم بس میں انسان کے
کِن درندوں کی ہیں خون آشامیاں
آئنہ، روز دکھلائے ماجدؔ ہمیں
سیلِ آلام کے جانے، کیا کیا نشاں
ماجد صدیقی

دکھائے گا وہ اندازِ شہاں آہستہ آہستہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
تنے گی اُس کے ابرو کی کماں آہستہ آہستہ
دکھائے گا وہ اندازِ شہاں آہستہ آہستہ
جو کونپل سبز تھی دو چارہے اَب زردیوں سے بھی
مرتب ہو رہی ہے داستاں آہستہ آہستہ
لہو میں چھوڑنے پر آ گیا اَب تو شرارے سے
بدل کر خوف میں اک اک گماں آہستہ آہستہ
سجا رہتا تھا ہر دم آئنوں میں آنسوؤں کے جو
کنول وُہ بھی ہُوا اَب بے نشاں آہستہ آہستہ
اکھڑنا تھا زمیں سے اپنے قدموں کا کہ سر سے بھی
سرکنے لگ پڑا ہے آسماں آہستہ آہستہ
بکھر کر رہ گئیں بادِمخالفت کے تھپیڑوں سے
تمنّاؤں کی ساریاں تتلیاں آہستہ آہستہ
سخنور ہم بھی ماجدؔ رات بھر میں تو نہیں ٹھہرے
ملی ہے دل کے جذبوں کو زباں آہستہ آہستہ
ماجد صدیقی

میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
جہاں کُھلیں مرے جَوہر وہ آسماں دے دے
میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے
مرے سکوں کا جو، میری بقا کا ضامن ہو
جو مختلف ہو قفس سے، وہ آشیاں دے دے
کہوں جو بات وہ جھومر، جبینِ وقت کا ہو
جو حق سرا ہو، وہ منصور سی زباں دے دے
کٹی جو رات تو، نجمِ سحر سے میں نے کہا
میں جی اٹھاہوں مرے کان میں اذاں دے دے
جو بعدِ جنگ علامت ہو، سرفرازی کی
عَلم وہ دے مرے ہاتھوں میں، وہ نشاں دے دے
سو یُوں ہُوا کہ ہُوا اُس کا، اِک مکیں میں بھی
طلب یہ کی تھی ،مجھے وادیٔ سَواں دے دے
جب آئے جی میں تری بزم میں چلا آؤں
یہ اِذنِ خاص بھی،ماجد کو، جانِ جاں دے دے
ماجد صدیقی

چہرہ ہے وہ کس کا جو سرِکاہکشاں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 156
ہے کون جو آنکھوں میں مری عرش نشاں ہے
چہرہ ہے وہ کس کا جو سرِکاہکشاں ہے
مدّت سے جو صےّاد کے ہاتھوں میں ہے موزوں
فریاد سے کب ٹوٹنے والی وہ کماں ہے
صحرا سی مری پیاس پہ برسا نہ کسی پل
وہ ابر کہ ہر آن مرے سر پہ رواں ہے
ہم لوگ چلیں ساتھ کہاں اہلِ غرض کے
آتی ہی جنہیں ایک محبت کی زباں ہے
رنگین ہے صدیوں سے جو انساں کے لہو سے
ہر ہاتھ میں کیسا یہ تصادم کا نشاں ہے
ماجدؔ ہے تجھے ناز نکھر آنے پہ جس کے
تہذیب وہ اخبار کے صفحوں سے عیاں ہے
ماجد صدیقی

تھا مگر وہ سرگراں ایسا نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
اُس پہ جو اب ہے، گماں ایسا نہ تھا
تھا مگر وہ سرگراں ایسا نہ تھا
بھُولنے والا ہو آسانی سے جو
اُس کے جانے کا سماں ایسا نہ تھا
لرزشوں میں ہو نہ جو پیہم گھِرا
باغ میں اِک آشیاں ایسا نہ تھا
ہر کہیں اب وجہ رُسوائی ہے جو
اپنے ماتھوں پر نشاں ایسا نہ تھا
اَب کے جو ماجدؔ نشیمن سے اُٹھا
پیڑ پر پہلے دُھواں ایسا نہ تھا
ماجد صدیقی

دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
اظہار کو تھا جس کی رعُونت پہ گماں اور
دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور
کہتی ہیں تجھے تشنہ شگوفوں کی زبانیں
اے ابر کرم ! کھینچ نہ تو اپنی کماں اور
ہر نقشِ قدم، رِستے لہو کا ہے مرّقع
اِس خاک پہ ہیں، اہلِ مسافت کے نشاں اور
نکلے ہیں لئے ہاتھ میں ہم، خَیر کا کاسہ
اُٹھنے کو ہے پھر شہر میں، غوغائے سگاں اور
صیّاد سے بچنے پہ بھی ، شب خون کا ڈر ہے
اب فاختہ رکھتی ہے یہاں ، خدشۂ جاں اور
دیکھیں گے، گرانی ہے زمانے کی یہی تو
سبزے کے کچلنے کو ابھی ، سنگِ گراں اور
ماجد وُہی کہتے ہیں، تقاضا ہو جو دل کا
ہم اہلِ سیاست نہیں، دیں گے جو بیاں اور
ماجد صدیقی

چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
حُسن اُس کا بحّدِ نہاں دیکھنا
چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا
کیُوں نہ ہم اِس ادا پر ہی مرتے رہیں
چھیڑنا اور اُسے بدگماں دیکھنا
کنجِ لب جیسے کھڑکی کُھلے خُلد کی
قامت و قد کو طوبیٰ نشاں دیکھنا
ہائے وُہ ہاتھ جن کی ہے تحریر وُہ
حرف در حرف مخفی جہاں دیکھنا
اُس کے رُخ پرنظر کا نہ ٹِکنا تو پھر
دفعتاً جانبِ آسماں دیکھنا
اُس کے پیکر سے اپنی یہ وابستگی
گنگُ لمحوں کے منہ میں زباں دیکھنا
آنکھ سے تو شراروں کا جھڑنا بجا
لمس تک سے بھی اُٹھتے دُھواں دیکھنا
نازکی اُس کی اور تشنگی شوق کی
نوک پر خار کی پرنیاں دیکھنا
اس بیاں پر نہ معتوب ٹھہرو کہیں
دیکھنا ماجدِ خستہ جاں دیکھنا
ماجد صدیقی

گھروندا بے نشاں ہونے لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
بس اتنا سا زیاں ہونے لگا ہے
گھروندا بے نشاں ہونے لگا ہے
غبارہ پھٹ کے رہ جانے کا قّصہ
ہماری داستاں ہونے لگا ہے
وُہ بھگدڑ کارواں میں ہے کہ جیسے
لُٹیرا پاسباں ہونے لگا ہے
رُکا تھا لفظ جو ہونٹوں پہ آ کر
وُہ اَب زخمِ زباں ہونے لگا ہے
نظر میں جو بھی منظر ہے سکوں کا
بکھرتا آشیاں ہونے لگا ہے
جو تھا منسوب کل تک گیدڑوں سے
اَب اندازِ شہاں ہونے لگا ہے
نظر میں تھا جو چنگاری سا ماجدؔ
وُہ گل اَب گلستاں ہونے لگا ہے
ماجد صدیقی

اور نا خلف کے منہ سے مِلیں، گالیاں الگ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
ہوتا ہے ایسے ربط سے جی کا زیاں الگ
اور نا خلف کے منہ سے مِلیں، گالیاں الگ
ہونے کو ہو تو جائے ادا ایک فرضِ خاص
ماں باپ بھی ہوں خاک بہ سر، بیٹیاں الگ
جاتی ہے اپنی کم نظری سے اِدھر جو آن
اُڑتی ہیں جسم و جاں کی اُدھر دھجیاں الگ
ڈالی جو خاک سر پہ ہمارے، زمین نے
برسا کیا ہے ہم پہ اُدھر آسماں الگ
توقیر بھی بدلتی ہے، تحقیر میں کبھی
حالات جس طرح کا بھی دے دیں نشاں الگ
لیکھوں میں شخص شخص کے لکّھی ملے یہاں
ناطے سے بِنت بِنت کے اِک داستاں الگ
ہم گُل بہ کف تھے، سنگ بہ کف مل گئے ہمیں
اُترا ہے اب کے آنکھ میں ماجد سماں الگ
ماجد صدیقی

پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
کانٹوں کے درمیاں گلِ تر کا نشاں بھی دیکھ
پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ
ہاتھوں میں میرے، صفحۂ سادہ پہ کر نظر
اظہارِ غم کو ترسی ہوئی انگلیاں بھی دیکھ
تو اور سراپا بس میں ہمارے ہو! ہائے ہائے!!
ہم پر یہ ایک تہمتِ اہلِ جہاں بھی دیکھ
تھا زیست میں بہار کا طوفاں بھی پل دو پل
اِس بحر میں تموّجِ گردِ خزاں بھی دیکھ
سہمی ہوئی حیات کو یُوں مختصر نہ جان
لمحے میں جھانک اور اسے بیکراں بھی دیکھ
ردّی کے بھاؤ بیچا گیا ہوں کسی کے ہاتھ
لے کُو بکُو بکھرتی مری داستاں بھی دیکھ
ماجدؔ ہے جس کا شور سماعت میں اَب تلک
اُس سیلِ تند و تیز کے چھوڑے نشاں بھی دیکھ
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑