تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

ناچار

دِل کہ بیگانۂ راحت ہے کسے یار کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
جس کو چھیڑے سرِ محفل وہی بیزار کرے
دِل کہ بیگانۂ راحت ہے کسے یار کرے
سرِ مقتل ہے یہی حرفِ ملامت کافی
کام باقی ہی رہا کیا ہے جو تلوار کرے
دل ہے میرا کہ پرندہ کوئی جوئندۂ آب
خواب میں کون یہ ہر شب مجھے بیدار کرے
ہم رُکے ہیں کہ یہی ڈور میّسر تھی ہمیں
اور ہوا ہے کہ اُڑانے ہی پہ اصرار کرے
آدمی بھی کہ ہے زندانِ تمّنا کا اسِیر
کام جو کرنا نہ چاہے وہی ناچار کرے
لوگ ہیں سطح پہ کائی کے بھی قائل ماجدؔ
تو ہی پاگل ہے جو ہر دَرد کا اظہار کرے
ماجد صدیقی

موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
تندئ باد وہی، گرد کی یلغار وہی
موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی
عدل کے نام پہ ہم سے تھی جو نُچوائی گئی
فرقِ نا اہل پہ اب کے بھی ہے دستار وہی
حلقۂ رقصِ صبا میں تو ہے شامل لیکن
پہلوئے گل میں ہیں پیوست ابھی خار وہی
مطمئن کیا ہو کوئی غسلِ مناظر سے کہ ہے
کربِ آشوب وہی دیدۂ بیدار وہی
ہے لپک اب بھی وہی دستِ طلب میں کہ جو تھی
با ثمر شاخ کے ہونٹوں پہ ہے انکار وہی
اب بھی اِک حد سے پرے شوق کے پر جلتے ہیں
عجزِ سائل ہے وہی شوکتِ دربار وہی
رُت کُھلی پر نہ معافی کو ملا اذنِ کشود
پیرہن ہے تنِ ہر حرف پہ ناچار وہی
کلبلائے تو اسے اتنا تو کرنے دیجے
دل جسے بعدِ جراحت بھی ہے آزار وہی
اب بھی چہروں سے غمِ دل نہیں کُھلتا ماجدؔ
اب بھی پندار کو ہے کلفتِ اظہار وہی
ماجد صدیقی

حرصِ سکوں کے سحر میں آ کر اور بھی ہم لاچار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
‮‮‮‮‮بہرِ شفا تھے جو بھی قیافے باعثِ صد آزار ہوئے
حرصِ سکوں کے سحر میں آ کر اور بھی ہم لاچار ہوئے
ہم نے جنہیں سُکھ چَین کی خاطر زینہ زینہ اَوج دیا
جان کے خاک ہمیں پیروں کی لوگ وُہی اوتار ہوئے
شاخوں پتّوں اور کلیوں میں کب تھا اِتنا سہم کبھی
مژدہ ہو اے حبس کہ تجھ سے پتّھر سب اشجار ہُوئے
غیر تو خیر ہمیں کیا دیتے، اپنوں نے بھی درد دئیے
اپنے آپ سے بیزاری کے قائل ہم ناچار ہُوئے
ہم نے پئے اظہارِ جنوں اپنائے تھے جو لفظ کبھی
طالب تھے توقیر کے لیکن اُلٹے ناہنجار ہوئے
بادِ صبا یا پھول کی خوشبو، ماجدؔ ذکر ہو کس کس کا
صحنِ چمن کے سارے باسی محرومِ اظہار ہُوئے
ماجد صدیقی

خلق سے وہ بے زار ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
جتنے بھی اوتار ملے
خلق سے وہ بے زار ملے
جن سے ملنا روگ ہُوا
اُن سے بھی ناچار ملے
سُکھ کے سپنے دیکھے تھے
پر کیا کیا آزار ملے
ناٹک میں چاہت کے بھی
نفرت کے آثار ملے
جھُوٹ بٹھائے مسند پر
سچ کہنے پر دار ملے
سوچیں ٹی وی سیٹ والے
کیونکر وی سی آر ملے
اچّھے ہیں وہ لوگ جنہیں
ماجدؔ جیسے یار ملے
ماجد صدیقی

کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
ہمارے عہد میں کب دیدۂ بیدار غالب ہے
کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے
بچے بھی گر بھنور سے تو اُسے ساحل نہ اپنائے
یہاں ہر ناتواں پر ایک سا آزار، غالب ہے
پہنچ کر عمر کو بھی یوں ہوا محصورِ نااہلاں
کہ جیسے شیرِ نر بھی دشت پر، ناچار غالب ہے
وُہی جو سانپ کی یورش سے اُٹھے آشیانوں میں
سماعت در سماعت، بس وُہی چہکار غالب ہے
بنو ماجد نہ غالبؔ، ذوق بن جاؤ جو ممکن ہو
کہ دُنیائے ہُنر میں قربتِ دربار غالب ہے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑