ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
نصابِ ربط کے نقش و نگار بُھول گئے
گلاب رکھ کے کتابوں میں یار، بُھول گئے
گھروں سے لے کے گھروں تک انا و نخوت کی
اُڑی وہ گرد کہ چہرے نکھار بُھول گئے
ہوائے تُند نے جھٹکے کچھ اس طرح کے دئیے
ہمارا کس پہ تھا کیا اختیار؟ بُھول گئے
جنہیں گماں تھا نمو اُن تلک بھی پہنچے گی
وہ کھیت مرحلۂ انتظار، بُھول گئے
نہ جان پائے کہ مچلے گا، پُھول چہروں میں
یہ ہم کہ خوئے دلِ نابکار، بُھول گئے
قدم کدھر کو ،ارادے کدھر کے تھے اُن کے
یہ بات رن میں سبھی شہسوار، بُھول گئے
فضائے تخت ثمر بار دیکھ کر ماجدؔ
جو روگ شہر کو تھے، شہریار، بُھول گئے
ماجد صدیقی