ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 171
کھیل ٹھہرا کسی مجروح کا اِحیا نہ ہُوا
اور معالج کئی ایسوں کا مسیحا نہ ہُوا
جس کی رگ رگ سے ترشّح ہے پُرانے پن کا
یہ کھنڈر سا ہے جو، دِل یہ تو ہمارا نہ ہُوا
کِشتِ جابر پہ رُتیں اور سے اور آتی گئیں
حق میں اُس کے تھا جو چاہا کبھی ویسا نہ ہُوا
دستِ منصف سے قلم اور طرف چل نکلا
رفعتِ دار پہ جو طَے تھا، تماشا نہ ہُوا
ٹیڑھ جو جو بھی تھی اُس کی وہ قبولی ہم نے
صرفِ جاں تک سے بھی کجرو سے گزارا نہ ہُوا
درجنوں ’دیس سنبھالے، کو پُھدکتے اُترے
پر کسی ایک سے بھی اِس کا مداوانہ ہُوا
جو بھی غاصب ہے بچو اُس سے کہ ماجد! اُس کی
نیّتِ خاص کسی کا بھی سہارا نہ ہُوا
ماجد صدیقی