تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

مجبور

زورآور نے مدِ مقابل کو محصور ہی رکھنا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
اِٹھلانے کچھ کر دکھلانے سے معذور ہی رکھنا ہے
زورآور نے مدِ مقابل کو محصور ہی رکھنا ہے
ہم ایسوں کو جو بے سمت بھی ہیں اور غافل و کاہل بھی
جبر نے اپنا ہاتھ دکھانا ہے مجبور ہی رکھنا ہے
جو بھی ہے صاحبِ قامت اُسکو شاہ کے مصاحب بَونوں نے
دھج اپنی قائم رکھنے کو شاہ سے دُور ہی رکھنا ہے
ظلمتِ شب میں کرمکِ شب بھی جس کے لبوں پر چمکا ہے
دن چڑھنے پر نام اُس نے اپنا منصور ہی رکھنا ہے
اِس مقصد کو سر نہ کہیں وہ اُٹھائیں تازہ بدن ہو کر
مزدوروں کو آجر نے ہر حال میں چُور ہی رکھنا ہے
ماجِد ہم نے یہی دیکھا ہے مشفق ماؤں تک نے بھی
جو بھی کوئی سوتیلا ہو اُس کو رنجور ہی رکھنا ہے
ماجد صدیقی

ہم سے لے جائیں تمہیں دُور زمانے والے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
ہیں اِسی بات پہ مسرور زمانے والے
ہم سے لے جائیں تمہیں دُور زمانے والے
دیکھنا رُو بہ نمو پھر شجر امید کا ہے
شاخ سے جھاڑ نہ دیں بُور زمانے والے
دستبردار ہوں چاہت ہی سے خود اہلِجنوں
یوں بھی کر دیتے ہیں مجبور زمانے والے
ٹھوکروں سے نہ سہی ضربِ نگاہِ بد سے
آئنہ دل کا کریں چُور زمانے والے
برق باغوں پہ گرے یا کوئی تارا ٹوٹے
کس نے دیکھے کبھی رنجورزمانے والے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑