تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

مانے

بکھریں سب تسبیح کے دانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 227
وقت نہ پھلنے دے یارانے
بکھریں سب تسبیح کے دانے
تعبیریں سب پا لیتے ہیں
خدشے، خواہشیں، خواب سہانے
کم اندیش جسے سچ سمجھیں
دل کیوں ایسی بات نہ مانے
سچّا ایک ہی رَٹ پر قائم
بدنیّت کے لاکھ بہانے
اشکوں میں جو راز چھپے ہیں
کب لفظوں میں لگے سمانے
ماجد اک اک کرکے بچھڑے
جتنے بھی تھے یار پُرانے
ماجد صدیقی

ہم بھی دربار میں سر اپنا جھکانے جاتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 156
فرقِ نا اہل کو کچھ اور اٹھانے جاتے
ہم بھی دربار میں سر اپنا جھکانے جاتے
ہم گئے کیوں نہ کسی جشن میں آزادی کے
دیس کے بخت پہ ہی اشک بہانے جاتے
ہم نے زردار تلک کے جو قصیدے لکھے
خَیر بالفعل بھی اس سے کبھی پانے جاتے
ہوں وہ قزّاق کہ رہبر پہ قضّیے اُن کے
ہو کے منسوب نہ ہم سے کہیں مانے جاتے
وہ کہ ہے دور بہت دور پہنچ سے اپنی
ہم بھی بستی کبھی اس مہ پہ بسانے جاتے
چاہے دنیا میں کہیں بھی ہمیں ملتی جا کے
دقلتِ امن وہ ہم کیوں نہ چرانے جاتے
جیسے نبّاض ہو یا کوئی مسیحا ماجد!
کاش اس طور سے ہم بھی کبھی مانے جاتے
نذرفراز
ماجد صدیقی

تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
میرے انگناں پھول کھلا دے خوشبودار، سہانے ہُو
تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو
خلقِ خدا کے حق میں میرے خواب وُہ سچّے ہو جائیں
میں جن خوابوں کے بُنتا رہتا ہوں تانے بانے ہُو
حملہ آوروں، قْزّاقوں پر، گُستاخوں، منہ زوروں پر
میں جو تیر چلاؤں کیونکر ملیں نہ اُنہیں نشانے ہُو
میں اپنی بد بختی پر کاہے کو سبب ٹھہراؤں انہیں
نام پہ اچھّوں اور سچّوں کے بنتے ہیں جو فسانے ہُو
جس بھی شخص نے اپنی ریاضت سے قد کاٹھ نکالا ہے
اُس کو بَونے زچ کردیں گے، دِل یہ بات نہ مانے ہُو
کل کچھ بچّے باہم حسرتیں بانٹ رہے تھے یہ کہہ کر
عیدکا چندا ماموں آیا۔۔۔ عیدیاں اُنہیں دلانے ہُو
ننھی چیونٹیوں جیسا عزم لیے دل میں جب نکلا تو
ماجد کو بھی ملے ہیں سخن کی شیرینی کے خزانے ہُو
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑