تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

لائے

کوئی ہوا کا جھونکا؟ جو جیون کی آس بندھائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 132
موسم کی جانب سے کیوں الٹا پیغام ہی آئے
کوئی ہوا کا جھونکا؟ جو جیون کی آس بندھائے
گھر گھر بھی اک آمر خود کو اتّم ہی کہلائے
اپنے کہے پر اوّل و آخر کبھی نہ جو شرمائے
آتے جاتے موسموں سے میں کیوں یہ بات نہ پوچھوں
انسانی چہرے کا چاند ہی نت نت کیوں گہنائے
کہتے ہیں پیڑوں کے پھل پیڑوں سے اچّھے لاگیں
بچّوں بچّیوں کی اولاد بھی یونہی من کو بھائے
بیٹا بیٹا ماں کے جوتے تک بھی سر پر رکھے
پر اپنے بچّوں کی ماں کجو نت نیچا دکھلائے
دھرمی دھرمی چرچا اپنے دھرم کا کبھی نہ بھولے
دوسرے دھرم کے لوگوں کو لیکن جھوٹا ٹھہرائے
ماجد بات کو گنجلک صورت بھی تو کبھی دیا کر
حالی سی کیا سادہ نثری غزلیں سامنے لائے
ماجد صدیقی

کاغذی پھُول ہی پودوں پہ سجائے جائیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
عیب موسم کے اب اِس طرح چھپائے جائیں
کاغذی پھُول ہی پودوں پہ سجائے جائیں
کھُل کے رہ جائے بھرم اہلِ ستم کا جن سے
لفظ ایسے کبھی ہونٹوں پہ نہ لائے جائیں
ہاتھ اِک خلق کے جیبوں کی طرف جن سے بڑھیں
سارے کرتب وُہ بندریا کو سکھائے جائیں
کیا خبر ذلّتِ پیہم ہی جگا دے اِن کو
شہر کے لوگ نہ کیوں اور ستائے جائیں
جرمِ غفلت کی یہی ایک سزا ہے اَب تو
اپنے پُتلے ہی سرِ عام جلائے جائیں
سادگی اوڑھ کے چہروں پہ بظاہر ماجدؔ
کھوٹ جن جن میں ہے سِکّے وُہ چلائے جائیں
ماجد صدیقی

وہی تنکے ہیں جن سے آشیاں ترتیب پائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
یہ ہم بے خانماں زورِ ہوا جن کو اڑا لے گا
وہی تنکے ہیں جن سے آشیاں ترتیب پائے گا
یہاں سرخاب کا پر جس کسی کو بھی لگے گا وہ
کسی ہم جنس سے کیونکر بھلا آنکھیں ملائے گا
کِیا خم ٹھونک کر جس ناتواں پر جبر جابر نے
پئے انصاف اب اُس کو عدالت تک بھی لائے گا
سرِ ابدان موزوں ہو چلی موجوں کی موسیقی
چٹخ کر ٹُوٹنے کی دُھن بھی اب پانی بنائے گا
رعونت کی ہَوا پھنکارتے ہونٹوں سے کہتی تھی
دِیا مشکل سے ہی کُٹیا میں اب کوئی جلائے گا
یہ ہم جو پٹّیاں آنکھوں پہ باندھے گھر سے نکلے ہیں
ہم ایسوں کو کوئی اندھا کنواں ہی لینے آئے گا
اُسے بھیجیں بھی گر ہم کارزارِ مکر میں ماجدؔ
پلٹ کر ایلچی پہلی سی بِپتا ہی سنائے گا
ماجد صدیقی

خاموشیِ وجدان، خبر لائے گی کچھ اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
ناحق پہ بھی لاریب گھڑی آئے گی کچھ اور
خاموشیِ وجدان، خبر لائے گی کچھ اور
جیسے کسی قیدی کو جنم دِن کا حوالہ
پنجرے میں صبا جھانک کے تڑپائے گی کچھ اور
صرصر نے جو دھارا ہے نیا روپ صبا کا
یہ فاحشہ ابدان کو سہلائے گی کچھ اور
کہہ لو اُسے تم رقص پہ طوفانِ بلا میں
کمزور ہے جو شاخ وہ لہرائے گی کچھ اور
وہ آنکھ جسے دھُن ہے فروغِ گلِ تر کی
موسم ہے گر ایسا ہی تو شرمائے گی کچھ اور
نکلی ہی نہیں گرد کے پہلو سے جو ماجدؔ
پیاسوں کو وہ بدلی ابھی ترسائے گی کچھ اور
ماجد صدیقی

مّدتوں سے وُہ کبوتر کبھی آئے، نہ گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
جن کے لائے ہوئے سندیس، بھُلائے نہ گئے
مّدتوں سے وُہ کبوتر کبھی آئے، نہ گئے
ہم نے کشتی کے اُلٹنے کی، خبر تو دے دی
اِس سے آگے تھے جو احوال، سُنائے نہ گئے
جس میں خود پھول بنے رہتے تھے، اہلِ خانہ
اَب کے اُس کُنج میں، گلدان سجائے نہ گئے
جانے بارش، نہ پرندوں کی برستی کیا کیا
تِیر ترکش میں جو باقی تھے، چلائے نہ گئے
کب منانے اُنہیں آئے گا، بچھڑنے والا
وُہ جنہیں، ضبط کے آداب سکھائے نہ گئے
آنکھ میں کرب اُتر آیا، شراروں جیسا
اشک روکے تھے مگر، زخم چھپائے نہ گئے
وُہ کہ تھا بادِ صبا، دے گیا جاتے جاتے
وُہ بگولے، کہ تصّور میں بھی لائے نہ گئے
اُس کے جانے سے، چھتیں گھر کی اُڑی ہوں جیسے
سر سلامت تھے جو، ژالوں سے بچائے نہ گئے
دل میں گر ہیں تو ارادے ہیں، بقا کے ماجدؔ
یہ وُہ خیمے ہیں، جو دشمن سے جلائے نہ گئے
ماجد صدیقی

مل بیٹھے ہیں جھیل کنارے چندا، رات اور مَیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
اپنی اپنی دھن میں نکلے چندا، رات اور مَیں
مل بیٹھے ہیں جھیل کنارے چندا، رات اور مَیں
اپنے ہاتھوں سورج کھو کر، سو گئے کیونکر لوگ
اتنی ساری بات نہ سمجھے چندا، رات اور مَیں
ایک ذرا سی پَو پھٹنے پر، باہم غیر ہوئے
ہم آپس کے دیکھے بھالے چندا، رات اور مَیں
اک دوجے سے پُختہ کرنے، کچھ لمحوں کا ساتھ
زینہ زینہ خاک پہ اُترے چندا، رات اور مَیں
تاب نظر کی، آنکھ کا کاجل اور سخن کا نُور
ماجدؔ چہروں چہروں لائے چندا، رات اور مَیں
ماجد صدیقی

کب یہ اُمید بھی بر آئے گی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
کب صبا تیرا پتہ لائے گی
کب یہ اُمید بھی بر آئے گی
صبح کی خیر مناؤ لوگو
شب کوئی دم ہے گزر جائے گی
ایسے منظر ہیں پسِ پردۂ حُسن
آنکھ دیکھے گی تو شرمائے گی
دل کو پت جھڑ کی حکایت نہ سناؤ
یہ کلی تاب نہیں لائے گی
مَیں بھی ہوں منزلِ شب کا راہی
رات بھی سُوئے سحر جائے گی
پیار خوشبُو ہے چھُپائے نہ بنے
بات نکلی تو بکھر جائے گی
دل سے باغی ہے تمّنا ماجدؔ
ہو کے اب شہر بدر جائے گی
ماجد صدیقی

ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
تم بھُول گئے کہ یاد آئے
ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے
مرتے ہیں ہمیں ترے نہ ہوتے
روتے ہیں ہمیں ترے بِن آئے
گزرے ہیں تری گلی سے لیکن
دل تھامے ہوئے نظر چُرائے
ہم بھی ترے مُدّعی ہوئے تھے
ہم بھی غمِ ہجر ساتھ لائے
ظُلمت سے نظر چُرانے والو
شب، خونِ جگر نہ چاٹ جائے
سہلا نہ سکے اگر تو ماجدؔ
موسم، کوئی تِیر ہی چلائے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑