تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

فریاد

تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 104
خامیاں اِس میں نہ اب اور بھی اِیزاد کرو
تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو
وہ کہ جو برحق و شفّاف ہے جگ میں سارے
دیس میں ووٹ کی پرچی وُہی ایجاد کرو
الفتِ ملک کے پَودے کو کہو حصّۂ جاں
پرورش اُس کی بھی تم صورتِ اولاد کرو
خیر سے یہ جو ہے چُنگل میں تمہارے آئی
یہ جو محبوس ہے جَنتا اِسے آزاد کرو
قبر پر جس کی مجاور بنے بیٹھے ہو یہ تم
تھا چلن اُس کا جو شاہو، وہ چلن یاد کرو
دیس ہے لُوٹ نشانہ، تو خزانہ ہے بدیس
اِس نشانے کو نہ اب اور بھی برباد کرو
یہ نکالی ہے جو قامت، قدِ شمشاد ایسی
اور بھی بالا نہ تم یہ قدِ شمشاد کرو
کرب کی کھائی سے اب نکلوگے کیسے لوگو
چیخ کر دیکھو، چنگھاڑو، بھلے فریاد کرو
تھا جو اُستاد وہ تھا محتسبِ اوّل ماجد
تم ادا کیوں نہ حقِ بندگیٔ اُستاد کرو
ماجد صدیقی

اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
اپنی بانہوں میں کبھی جو وہ ستم ایجاد لُوں
اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں
کوئی عارض ہو درخشاں، کوئی قامت دل نشیں
اپنے آئندہ سفر کے واسطے میں زاد لُوں
کاش قُرعے ہوں سپھل میرے بہ حقِ خستگاں
اپنے داموں میں بھی نِت اِک شہرِ نَوآباد لُوں
کیسے پُوری کر دکھاؤں سب مرادیں میں تری
میں بھلا تیری خبر کیا اے دلِ ناشاد لُوں
کون زیرِ چرخ پہنچے گا رسائی کو مری
اپنے ذمّے میں کہ یہ اِک خلق کی فریاد لُوں
اپنے ہم عصروں میں منصف ہے تو اِک یاور ہی ہے
میروغالب ہوں تو اُن سے اپنے فن کی دادلُوں
ناپ کو ماجد فراہم ہوں اگر اُونچائیاں
میں سخن کے واسطے اپنے قدِ شمشاد لُوں
ماجد صدیقی

دکھاتا ہے چلن صّیاد کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 98
ستم کرنے لگا ایجاد کیا کیا
دکھاتا ہے چلن صّیاد کیا کیا
فلک کی بے کراں پہنائیوں میں
بھٹکتی ہے مری فریاد کیا کیا
زمانہ باپ ہے شیریں کا جس نے
ہٹائے راہ سے فرہاد کیا کیا
کہا جب کچھ خلافِ طبع اُس کے
کِیا اُس نے بھی پھر ارشاد کیا کیا
مجھے تشنہ سمجھ کر، خستّوں پر
اُتر آئے ہیں ابر و باد کیا کیا
جھلکتے ہیں تِرے شعروں میں ماجدؔ
نجانے مانی و بہزاد کیا کیا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑