تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

صفائی

نہیں ہے اس میں شامل شائبہ تک ناروائی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 162
ذریعہ جو بھی ہم اشرافیہ کی ہے کمائی کا
نہیں ہے اس میں شامل شائبہ تک ناروائی کا
بہانے منصفی کے بلّیوں کی لے اُڑا روٹی
کیا کیا فرض بندر نے ادا، حق آشنائی کا
بچھڑ کر اُن سے جیون بھر وہی یادوں میں رہتا ہے
جو پہلو پاس بچّوں کے ہے تھوڑی دلربائی کا
بہت اچّھا ہے جتنی جس کسی کی جس سے بن آئے
پھر اُس کے بعد تو پڑتا سمندر ہے جدائی کا
گدھا گاڑی پہ بیٹھوں تک میں جو اُترا ہے برسوں سے
دیا جائے نہ کیوں چوکوں پہ تمغہ اُس ڈھٹائی کا
ہمارے تذکروں سے مسخرے زراور بھی کیا کیا کمائیں گے
بنیں گے کب تلک ہم آپ عنواں جگ ہنسائی کا
خودی کا فلسفہ اقبال کا کب رنگ لائے گا
گرے گا ہاتھ سے شاہوں کے کب کاسہ گدائی کا
ہمارے قائدِ اعظم کہیں یہ جا نشینوں سے
ادا کرکے دکھایا کیا سے کیا حق رہنمائی کا
عجب نسخہ عمل میں آ گیا ہم میں سے بعضوں کے
پلیدی نیّتوں میں، منہ پہ دعویٰ پارسائی کا
پرخچے کتنے جسموں کے نجانے جا اُڑاتا ہے
جہاں بھی جا کے پہنچا ہاتھ دہشت کے قصائی کا
جو ماجد کر کے چوری مخبروں سے مار کھا بیٹھے
انہیں درپیش ہے اب مرحلہ کیا کیا صفائی کا
ماجد صدیقی

وُہ مانے گا نہ اَب کوئی صفائی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
ترازُو ہاتھ جس منصف کے آئی
وُہ مانے گا نہ اَب کوئی صفائی
کھلائے گی کلی کو اور ہوا پھر
اُڑا لے جائے گی اُس کی کمائی
لگے، جیسے اندھیرے ہی میں بانٹے
وُہ جس کو بھی عطا کر دے خُدائی
بنے گا چھتر وُہ بیوہ کے سر کا
بڑوں نے جس کو اَب تختی تھمائی
ٹپکتی ہوں چھتیں جن کے سروں پر
لبوں پر کیوں نہ ہو اُن کے دُہائی
ہوئے بے اختیار ایسے کہ ہم سے
وُہ اِک اِک بات کی مانگے صفائی
نظر میں ٹُوٹتے تارے بسا کر
تِرا لہجہ ہوماجدؔ کیا رجائی
ماجد صدیقی

یہی جُنوں ہے مِرا وُہ مجھے رہائی نہ دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
اسیرِ قرب کرے، وسعتِ خُدائی نہ دے
یہی جُنوں ہے مِرا وُہ مجھے رہائی نہ دے
وُہ مثلِ موج مِلے آ کے ریگِ ساحل سے
مگر اُسے بھی کبھی اذنِ آشنائی نہ دے
یہ عہدِ جیب تراشی ہے کیا کہ جس میں کہیں
کوئی بھی کھُل کے کسی اور کی صفائی نہ دے
یہی دُعا ہے کہ بے آب ہوں نہ حرف مِرے
سزا کوئی بھی وُہ دے، عجزِ بے نوائی نہ دے
امیرِ شہر کا کیا وُہ تو بس یہی چاہے
یہاں کوئی بھی کسی بات کی دُہائی نہ دے
یہ کیسا منبعِٔ ظلمت ہے دَورِ نو کہ جہاں
جز اپنی ذات کے ماجدؔ کوئی دکھائی نہ دے
ماجد صدیقی

خدا اُس کو خدائی دے رہا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
جہاں جس کی دُہائی دے رہا ہے
خدا اُس کو خدائی دے رہا ہے
چُرا کر خضر کا جامہ ہمیں وہ
سلگتی جگ ہنسائی دے رہا ہے
پڑی زد جرم کی جس پر وہ چُپ ہے
جو مجرم ہے صفائی دے رہا ہے
بگولہ گھیر کر ہر ذِی طلب کو
ثمر تک نارسائی دے رہا ہے
وہ لاوا جو سِلے ہونٹوں کے پیچھے
دہکتا ہے سُنائی دے رہا ہے
وہ دے کر زر دریدہ عصمتوں کو
اُنہیں اُن کی کمائی دے رہا ہے
تناؤ ساس کے تیور کا ماجدؔ
دُلہن کو ’منہ دِکھائی‘ دے رہا ہے
ماجد صدیقی

جس کو اُونچا سُنائی دیتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 146
وُہ اُسے ہی خُدائی دیتا ہے
جس کو اُونچا سُنائی دیتا ہے
کون بَونا بنے چھُڑا کے مجھے
کون میری صفائی دیتا ہے
سر بلندی مجھی سے ہے جس کی
کب مجھے وُہ رہائی دیتا ہے
ہے قرابت اُسی سے مالی کی
پیڑ جو بھی کمائی دیتا ہے
کون ہے وُہ چمن کے آنگن سے
جو مہک کو جُدائی دیتا ہے
ہر ستم کوش کو چلن اُس کا
کتنا ارفع دکھائی دیتا ہے
سنگ کب موم میں ڈھلے ماجدؔ
دل یہ کس کی دہائی دیتا ہے
ماجد صدیقی

زد میں ہے کوہِ جاں وہ رائی کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
چاہ تھی جس کو خود نمائی کی
زد میں ہے کوہِ جاں وہ رائی کی
جس کو بھی دی عنانِ دل ہم نے
دھونس دکھلا گیا خدائی کی
سامنا ہے ہمیں اُس عادل کا
دے نہ مہلت بھی جو صفائی کی
لوُٹنے میں وقار خواہش کا
وقت نے سخت بے حیائی کی
بلبلوں کے لیے سمندر میں
کوئی صورت نہیں رہائی کی
شاخ ژالوں سے کیا کہے ماجدؔ
داستاں اپنی بے رِدائی کی
ماجد صدیقی

سُنا جائے نہ ہم سے شور پتّوں کی دُہائی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
پھِرا ہے جب سے موسم ٹہنیوں کی بے ردائی کا
سُنا جائے نہ ہم سے شور پتّوں کی دُہائی کا
ہم اُن آبادیوں میں، منتظر ہیں سر چھپانے کے
نمٹنے میں نہ آئے کام ہی جن کی چُنائی کا
لگاتے کچھ تو جنّت بھی ہمارے ہاتھ آ جاتی
مگر حصہ خدا کے نام کرتے، کس کمائی کا
ہمارے نام تھا منسوب جانے جرم کس کس کا
نہ تھا آساں کچھ ایسا، مرحلہ اپنی صفائی کا
مجھے اک عمر، جس شاطر نے پابندِ قفس رکھا
وُہی اَب منتظم بھی ہے مرے جشن رہائی کا
کہے پیراہنِ بے داغ، بگلے کا یہی ماجد
وہی ہے پارسا دعویٰ جسے ہے پارسائی کا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑