تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

صدا

رخت میں نقدِ بقا باندھتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 196
ہم جو مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
رخت میں نقدِ بقا باندھتے ہیں
اہلِ فن لفظ و ندا میں دیکھو!
کیسے سپنوں کا لکھا باندھتے ہیں
دل کے مَیلے ہیں جو کھولیں کیسے
جو گرہ اہلِ صفا باندھتے ہیں
جور بے طرح سخن میں لائیں
وہ جو زینب کی ردا باندھتے ہیں
وہ جنہیں اَوج نشینوں سے ملے
طرّۂ ناز بڑا باندھتے ہیں
وسوسہ دل میں نہ پالیں کوئی
ہم کہ ہر عہد کُھلا باندھتے ہیں
سوداکاری میں اَنا کی پڑ کے
لوگ جسموں کی بہا باندھتے ہیں
جو ہنرور ہیں نئی نسلوں کے
مٹھی مٹھی میں جلا باندھتے ہیں
وہ کہ موجد ہیں۔۔درونِ مادہ
نو بہ نو عکس و صدا باندھتے ہیں
بیٹیاں عمر بِتائیں روتے
اُن کو ماں باپ کُجا باندھتے ہیں
زور تن میں ہو تو ہر بات میں ہم
ناروا کو بھی روا باندھتے ہیں
ہو جہاں ذکرِ عقائد اس میں
ہم صنم تک کو خدا باندھتے ہیں
اپنے جیسوں پہ جو ڈھاتے ہیں ستم
اپنے پلّو میں وہ کیا باندھتے ہیں
سینہٗ شب میں کرے چھید وہی
ہم کہ جگنو کو دِیا باندھتے ہیں
ہم کبوتر کے پروں میں ماجد
لطفِ یاراں کا صلہ باندھتے ہیں
ماجد صدیقی

کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
ہیں لب کشا بھی مگر جیسے کچھ کہا ہی نہیں
کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں
بھنور بھی جھاگ سی بس سطحِ آب پر لایا
جو تہہ میں ہے وُہ ابھی تک اُبھر سکا ہی نہیں
ہمیں جو ہوش میں لائے تو زلزلہ ہی کوئی
وہ بے حسی کا نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
یہ کیسا عام ہے اعلانِ صحتِ یاراں
ہمیں جو روگ تھا وہ تو ابھی گیا ہی نہیں
شکستِ دل بھی شکستِ حباب تھی جیسے
فضائے دہر میں اُٹھی کوئی صدا ہی نہیں
کسی پہ حال ہمارا عیاں ہو کیا ماجدؔ
کھُلا کسی پہ کبھی حرفِ مدّعا ہی نہیں
ماجد صدیقی

داغِ برہنگی یہ اُسی نے دیا نہ ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
شاخ و شجر سے ابرِ کرم ہی خفا نہ ہو
داغِ برہنگی یہ اُسی نے دیا نہ ہو
ہاں ہاں فتُور یہ بھی مرے عجز کا نہ ہو
سائل ہوں جس کا خود کو سمجھتا خدا نہ ہو
موجِ صبا ہی ہو نہ کہیں در پے فساد
پتّوں کے درمیاں وہی شورش بپا نہ ہو
یہ تھر تھری سی کیوں ہے ابھی روئے آب پر
ڈوبا ہے جو اُسی کی پریشاں صدا نہ ہو
جس میں ہوئی تھیں میری تمنّائیں جاگزیں
بُغضِ ہوا سے پھر وہی خیمہ اُڑا نہ ہو
یارانِ ہم بساط سے بے زار تھا بہت
ماجدؔ بساطِ شوق اُلٹ ہی گیا نہ ہو
ماجد صدیقی

ہوا نے اپنا ارادہ بتا دیا ہے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
تبر بہ دست بھی ہے جس کا آسرا ہے مجھے
ہوا نے اپنا ارادہ بتا دیا ہے مجھے
رہِ سفر کا مرے رُخ ہی موڑ دے نہ کہیں
یہ دستِ غیب سے پتّھر جو آ پڑا ہے مجھے
جو دے تو میری گواہی وہ شاخِ سبز ہی دے
پنہ میں جس کی یہ تیرِ قضا لگا ہے مجھے
عجب عذاب ہے یہ تہ رسی نگاہوں کی
چٹک کلی کی بھی اب خاک کی صدا ہے مجھے
میں اُس مقام پہ ماجدؔ پہنچ گیا ہوں جہاں
یہ خامشی بھی تری حرفِ مدّعا ہے مجھے
ماجد صدیقی

دشت پر سے بادل کو لے اُڑے ہوا جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
ہو چلی ہے ہر آشا یُوں گریز پا جیسے
دشت پر سے بادل کو لے اُڑے ہوا جیسے
کھِل نہیں سکی اُس کے سامنے کلی دل کی
دب گیا ہے ہونٹوں میں حرفِ مدّعا جیسے
چشم و لب کے آنگن میں ہو غرض کا موسم تو
بن کے بیٹھ رہتا ہے ہر کوئی خُدا جیسے
حال ہے کچھ ایسا ہی آج کے مؤرخ کا
داستاں لکھے اپنی کوئی بیسوا جیسے
رو پڑا ہے کیوں، دیکھو، ہاتھ میں سے بچّے کے
گِر گیا ہے، لگتا ہے، پھر سے جھنجھنا جیسے
اِس زمیں کا ہر خطّہ حرص کے حوالوں سے
یُوں لگے کہ ہونا ہو دشتِ کربلا جیسے
دل کی بات بھی ماجدؔ کھوکھلی ہوئی ایسی
زیرِ آب سے اُٹھے موجۂ صدا جیسے
ماجد صدیقی

جب بھی دیکھا ہے پیڑوں کے تن پر دریدہ قبا اور تھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
ہم بہاروں کے طالب تھے لیکن رُتوں کی رضا اور تھی
جب بھی دیکھا ہے پیڑوں کے تن پر دریدہ قبا اور تھی
وُہ کہ جس کو تقاضا رہا ہم سے اظہارِ آزار کا
دل کو لائے زباں پر تو اُس انجمن کی فضا اور تھی
ہم تو ہر بات کو اُس کی، اخلاص کا رنگ دیتے رہے
ہم کو احساس ہی کب یہ تھا نیّتِ آشنااور تھی
اِس عجوبے کو ہم کیا کہیں جب چمن ہی قفس بن گیا
ساتھ لاتی تھی اپنے جو نزہت کبھی وہ صبا اور تھی
ساتھ لیکر جو چلتے تھے اوروں کو وہ رہنما اور تھے
کان میں گھولتی تھی جو رس ہمسری کا، صدااور تھی
سنگ دل تھے جو، اِس کو وُہی راکھ کا ڈھیر سمجھا کئے
دل کی ماجدؔ وگرنہ بہ ایں بے بسی بھی بہا اور تھی
ماجد صدیقی

پھرفکر و نظر میں زلزلہ ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
مجھ سے وُہ بچھڑ کے پھر چلا ہے
پھرفکر و نظر میں زلزلہ ہے
بے نطق نہیں نگاہ اپنی
بے تاب لُہو کی یہ صدا ہے
میں آگ تھا پر سُخن نے اُس کے
گلزار مجھے بنا دیا ہے
شیریں ہے ہر ایک بات اُس کی
وہ جو بھی کہے اُسے روا ہے
یہ دل کہ حزیں ہے مدّتوں سے
پُوچھا نہ کسی نے کیوں بُجھا ہے
ممکن نہیں اُس تلک رسائی
اُس شخص کی اور ہی ادا ہے
لکھا ہے یہ اُس کا نام ماجِد
یا پھول سرِورق کھلا ہے
ماجد صدیقی

سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گلا مجھے
سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے
چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ، کنارِ دوش
عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے
اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا
کیسا یہ بارِ خارکشی دے دیا مجھے
ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم
کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے
کج ہو چلی زبان بھی مجھ کُوز پشت کی
کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے
اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے
کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا، مجھے
بچپن میں تھا جو ہمدمِ خلوت، ملا کِیا
مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے
میں تھک گیا ہوں شامِ مسافت ہوا سے پوچھ
منزل کا آ کے دے گی بھلا کب پتا مجھے
محتاج ابر و باد ہوں پودا ہوں دشت کا
لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے
لاتی ہے فکرِ روزیِ یک روز، ہر سحر
آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے
بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی
ہر روز ہر قدم پہ جھُکاتا رہا مجھے
اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں
کسبِ معاش میں بھی ملی ہے خلا مجھے
حکمِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور
سُوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے
میں بار کش ہوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام
اِحساسِ افتخار دلاتا ہے کیا مجھے
میری بھی ایک فصل ہے اُٹھ کر جو شب بہ شب
دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے
کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں
آ اے حریصِ رزق ! کبھی مل ذرا مجھے
ماجد صدیقی

رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کافی ہے یہی، دل کو سزا اور نہ دینا
رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا
پہلے ہی قفس میں ترے احسان بہت ہیں
گھاؤ کوئی، اے موجِ صبا! اور نہ دینا
کیا درد بٹاؤ گے کہ جس سِحر میں ہم ہیں
پتھر ہی نہ ہو جائیں صدا اور نہ دینا
صنّاع کہیں خود نہ کھنچا آئے زمیں پر
اِس چاند سے چہرے کو جِلا اور نہ دینا
حاصل ہے جو تجھ سے ہمیں پھولوں کی مہک سی
اُس قرب کی مہلت کو گھٹا اور نہ دینا
ہے اِس کی شرافت ہی خسارے کو کہاں کم
ماجد کو بزرگی کی رِدا اور نہ دینا
ماجد صدیقی

کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
جو مرحلۂ زیست ہے پہلے سے کڑا ہے
کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے
جو آنکھ جھکی ہے ترے سجدے میں گرے ہے
جو ہاتھ تری سمت اُٹھا، دستِ دُعا ہے
اُس درد کا ہمسر ہے ترا پیار نہ تُو ہے
تجھ سے کہیں پہلے جو مرا دوست ہوا ہے
آتا ہے نظر اور ہی اَب رنگِ گلستاں
خوشبُو ہے گریزاں تو خفا موجِ صبا ہے
دل ہے سو ہے وابستۂ سنگِ درِ دوراں
اور اِس کا دھڑکنا ترے قدموں کی صدا ہے
ماجدؔ ہے کرم برق کا پھر باغ پہ جیسے
پھر پیڑ کے گوشوں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑