تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

صبا

لب و زبان پہ نامِ خدا کا چرچا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 137
پسِ یقیں ہے جو حرص و ہوا کا چرچا ہے
لب و زبان پہ نامِ خدا کا چرچا ہے
نقاب میں بھی جو ہے بے نقاب، آنکھ ہے وہ
اُدھر بس آنکھ میں شرم و حیا کا چرچا ہے
یہ آئی ہے چمنب قُرب سے ترے ہو کر
سحر سحر جو یہ بادِ صبا کا چرچا ہے
ہے جس کے نام پہ شاید اس خبر بھی نہیں
سخن میں یہ جو کسی آشنا کا چرچا ہے
اسے خلافِ ریاست بھی گر کہیں تو بجا
کہ میڈیا کا غضب انتہا کا چرچا ہے
یہ لیڈروں کی نظر فوج پر ہی کیوں ہے لگی
بیاں بیاں میں یہ کس مدّعا کا چرچا ہے
ملے بھی تو کئی برسوں میں شاذ شاذ ملے
فقط خبر ہی ماجد سزا کا چرچا ہے
ماجد صدیقی

فتنہ ہمسری و نا ہمسری کا او یار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
اپنے یہاں یہ حشر ہے کب کا بپا !او یار
فتنہ ہمسری و نا ہمسری کا او یار
دیکھ ذرا بارش کے بعد کی قوسِ قزح
در اُس شوخ کا دیکھ فلک پہ کھلا او یار
وہ کہ گلاب و سمن ہے جس کا بدن اُس سے
مانگنے آئے مہک نت بادِ صبا او یار
میں کہ کہے کے نیاپے پر مچلوں وہ سب
لگے ہے مجھ سے پہلے کہا گیا او یار
حاکمِ وقت سے عدل کی بھیک کی خواہاں ہے
تخت پہ ٹنگی ہوئی اک نُچی قبا او یار
چڑیوں پر ژالوں سے گزرتے کیا گزری
خیر کی کوئی خبر ایسی بھی سنا او یار
پڑھ پڑھ کے اُس کو تُو اپنی تاب بڑھا
تازہ سخن ہے جو ماجد پر اُترا او یار
ماجد صدیقی

بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
مثالِ برگِ خزاں اپنا ماجرا کہئیے
بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے
بہ دامِ موج وُہ اُلجھا گیا ہے کیا کہئیے
نہنگ جانئیے اُس کو کہ ناخدا کہئیے
ہمارے دم سے سہی اَب تو سربلند ہے وُہ
اسے بھی عجز کا اپنے ہی اِک صلا کہئیے
جھڑی ہے دُھول شجر سے اگر بجائے ثمر
تو کیوں نہ وقت کی اِس کو بھی اِک عطا کہئیے
زباں کے زخم پُرانے یہی سُجھاتے ہیں
کہ اب کسی سے بھی دل کا نہ مدّعا کہئیے
بہ شاخِ نطق یہ بے بال و پر پرندے ہیں
نہ شعر کہئیے اِنہیں حرفِ نارسا کہئیے
نگاہ رکھئے زمینِ چمن پہ بھی ماجدؔ
خزاں کو محض نہ آوردۂ صبا کہئیے
ماجد صدیقی

اور کبھی بندِ قبا دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
غنچہ پس شاخ کھِلا دیکھنا
اور کبھی بندِ قبا دیکھنا
دیکھنا اُس کو ذرا محوِ کلام
اوج پہ ہے رقصِ صبا دیکھنا
پھر یہ کہاں لطفِ ہجومِ نگاہ
ہو کے ذرا اور خفا دیکھنا
چھیننا مجھ سے نہ یہ آب بقا
دیکھنا ہاں نامِ خدا دیکھنا
دل کہ ترے لطف سے آباد تھا
شہرِ تمّنا یہ لُٹا دیکھنا
خار ہیں اب جس پہ اُسی راہ پر
فرش گلوں کا بھی بچھا دیکھنا
چاہئے ماجدؔ سرِ شاخِ نظر
روز نیا پھول کھِلا دیکھنا
ماجد صدیقی

دریا میں وفور آب کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
ہر سُو جو چھلک چھلک چلا ہے
دریا میں وفور آب کا ہے
چُوزوں ہی پہ چِیل چِیل جِھپٹے
مظلوم ہی دار پر کِھنچا ہے
اب تک نہ لگا کسی کنارے
لب پر جو سفینۂ دُعا ہے
ذرّے مجھے مہر دیں دکھائی
قدموں میں لگے ،بِچھی ضیا ہے
چندا میں ہے اُس کا چاند چہرہ
اور ایلچی اُس کی یہ صبا ہے
مُونس ہے ہر اِک لُٹے پُٹے کا
ماجِد کہ نِعَم میں خود پلا ہے
ماجد صدیقی

صحرا میں یہ موجۂ صبا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
ہونٹوں پہ جو بول پیار کا ہے
صحرا میں یہ موجۂ صبا ہے
پُونجی کسی بُلبُلے کی جیسے
اِس زیست میں اور کیا دھرا ہے
باز آئے نہ لوٹنے سے سورج
دیکھاہے یہی، یہی سُنا ہے
بندھنی ہے جو آتے موسموں میں
اپنے ہی سخن کی وُہ ہوا ہے
ہر میمنہ گُرگ سے کہے یہ
جو آپ کہیں وُہی بجا ہے
سہہ جائے تُو تُند و تُرش کیا کیا
ماجِد ترا حوصلہ بڑا ہے
ماجد صدیقی

جب بھی دیکھا ہے پیڑوں کے تن پر دریدہ قبا اور تھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
ہم بہاروں کے طالب تھے لیکن رُتوں کی رضا اور تھی
جب بھی دیکھا ہے پیڑوں کے تن پر دریدہ قبا اور تھی
وُہ کہ جس کو تقاضا رہا ہم سے اظہارِ آزار کا
دل کو لائے زباں پر تو اُس انجمن کی فضا اور تھی
ہم تو ہر بات کو اُس کی، اخلاص کا رنگ دیتے رہے
ہم کو احساس ہی کب یہ تھا نیّتِ آشنااور تھی
اِس عجوبے کو ہم کیا کہیں جب چمن ہی قفس بن گیا
ساتھ لاتی تھی اپنے جو نزہت کبھی وہ صبا اور تھی
ساتھ لیکر جو چلتے تھے اوروں کو وہ رہنما اور تھے
کان میں گھولتی تھی جو رس ہمسری کا، صدااور تھی
سنگ دل تھے جو، اِس کو وُہی راکھ کا ڈھیر سمجھا کئے
دل کی ماجدؔ وگرنہ بہ ایں بے بسی بھی بہا اور تھی
ماجد صدیقی

خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے
انگوٹھہ منہ سے نکلا ہے تو بچّہ
نجانے چیخنے کیوں لگ پڑا ہے
کسی کو پھر نگل بیٹھا ہے شاید
سمندر جھاگ سی دینے لگا ہے
گماں یہ ہے کہ بسمل کے بدن میں
کسی گھاؤ کا مُنہ پھر کُھل گیا ہے
ہوئی ہر فاختہ ہم سے گریزاں
نشاں جب سے عقاب اپنا ہوا ہے
وُہ دیکھو جبر کی شدّت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
بڑی مُدّت میں آ کر محتسب بھی
فقیہہِ شہر کے ہتّھے چڑھا ہے
لگے جیسے خطا ہر شخص اپنی
مِرے ہی نام لکھتا جا رہا ہے
بھُلا کر دشت کی غُّراہٹیں سب
ہرن پھر گھاٹ کی جانب چلا ہے
چلیں تو سیدھ میں بس ناک کی ہم
اِسی میں آپ کا، میرا بھلا ہے
دیانت کی ہمیں بھی تاب دے وُہ
شجر جس تاب سے پھُولا پھَلا ہے
بہلنے کو، یہ وُہ بستی ہے جس میں
بڑوں کے ہاتھ میں بھی جھنجھنا ہے
ملانے خاک میں، میری توقّع
کسی نے ہاتھ ٹھوڑی پر دھرا ہے
نہیں ہے سیج، دن بھی اُس کی خاطر
جو پہرہ دار شب بھر جاگتا ہے
کھِلے تو شاذ ہی مانندِ نرگس
لبوں پر جو بھی حرفِ مُدعّا ہے
نجانے ذکر چل نکلا ہے کس کا
قلم کاغذ تلک کو چُومتا ہے
اَب اُس سے قرب ہے اپنا کُچھ ایسا
بتاشا جیسے پانی میں گھُلا ہے
ہوئی ہے اُس سے وُہ لمس آشنائی
اُسے میں اور مجھے وُہ دیکھتا ہے
وُہ چاند اُترا ہوا ہے پانیوں میں
تعلّق اُس سے اپنا برملا ہے
نِکھر جاتی ہے جس سے رُوح تک بھی
تبسّم میں اُسی کے وُہ جِلا ہے
مَیں اُس سے لُطف کی حد پوچھتا ہوں
یہی کچُھ مجُھ سے وُہ بھی پُوچتھا ہے
بندھے ہوں پھُول رومالوں میں جیسے
مری ہر سانس میں وُہ یُوں رچا ہے
لگے ہے بدگماں مجھ سے خُدا بھی
وُہ بُت جس روز سے مجھ سے خفا ہے
جُدا ہو کر بھی ہوں اُس کے اثر میں
یہی تو قُرب کا اُس کے نشہ ہے
کہیں تارا بھی ٹوٹے تو نجانے
ہمارا خُون ہی کیوں کھولتا ہے
ہمارے رزق کا اِک ایک دانہ
تہِ سنگِ گراں جیسے دبا ہے
مِری چاروں طرف فریاد کرتی
مِری دھرتی کی بے دم مامتا ہے
رذالت بھی وراثت ہے اُسی کی
ہر اِک بچّہ کہاں یہ جانتا ہے
چھپا جو زہر تھا ذہنوں میں، اَب وُہ
جہاں دیکھو فضاؤں میں گھُلا ہے
اجارہ دار ہے ہر مرتبت کا
وُہی جو صاحبِ مکر و رِیا ہے
سِدھانے ہی سے پہنچا ہے یہاں تک
جو بندر ڈگڈگی پر ناچتا ہے
سحر ہونے کو شب جس کی، نہ آئے
اُفق سے تا اُفق وُہ جھٹپٹا ہے
نظر والوں پہ کیا کیا بھید کھولے
وُہ پتّا جو شجر پر ڈولتا ہے
وہاں کیا درسِ بیداری کوئی دے
جہاں ہر ذہن ہی میں بھُس بھرا ہے
ہوئی ہے دم بخود یُوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
جہاں جانیں ہیں کچھ اِک گھونسلے میں
وہیں اِک ناگ بھی پھُنکارتا ہے
شجر پر شام کے، چڑیوں کا میلہ
صدا کی مشعلیں سُلگا رہا ہے
کوئی پہنچا نہ اَب تک پاٹنے کو
دلوں کے درمیاں جو فاصلہ ہے
نجانے رشک میں کس گلبدن کے
چمن سر تا بہ سر دہکا ہوا ہے
بہ نوکِ خار تُلتا ہے جو ہر دم
ہمارا فن وُہ قطرہ اوس کا ہے
یہی عنواں، یہی متنِ سفر ہے
بدن جو سنگِ خارا سے چِھلا ہے
نہیں پنیچوں کو جو راس آسکا وُہ
بُرا ہے، شہر بھر میں وُہ بُرا ہے
پنہ سُورج کی حّدت سے دلانے
دہانہ غار کا ہر دَم کھُلا ہے
جو زور آور ہے جنگل بھی اُسی کی
صدا سے گونجتا چنگھاڑتا ہے
نجانے ضَو زمیں کو بخش دے کیا
ستارہ سا جو پلکوں سے ڈھلا ہے
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا!
سلوک ہم سے جو دُنیا نے کیا ہے
نجانے یہ ہُنر کیا ہے کہ مکڑا
جنم لیتے ہی دھاگے تانتا ہے
نہیں ہے شرطِ قحطِ آب ہی کچھ
بھنور خود عرصۂ کرب و بلا ہے
عدالت کو وُہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دُھلا ہے
گرانی درد کی سہنے کا حامل
وُہی اَب رہ گیا جو منچلا ہے
بہ عہدِ نو ہُوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا ہے
سُنو اُس کی سرِ دربار ہے جو
اُسی کا جو بھی فرماں ہے، بجا ہے
ہُوا ہے خودغرض یُوں جیسے انساں
ابھی اِس خاک پر آ کر بسا ہے
بتاؤ خلق کو ہر عیب اُس کا
یہی مقتول کا اَب خُوں بہا ہے
ہُوا ہے جو، ہُوا کیوں صید اُس کا
گرسنہ شیر کب یہ سوچتا ہے
بہم جذبات سوتیلے ہوں جس کو
کہے کس مُنہ سے وُہ کیسے پلا ہے
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کَسا ہے
جو خود کج رَو ہے کب یہ فرق رکھّے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
ذرا سی ضو میں جانے کون نکلے
اندھیرے میں جو خنجر گھونپتا ہے
سحر ہو، دوپہر ہو، شام ہو وُہ
کوئی بھی وقت ہو ہم پر کڑا ہے
جِسے کہتے ہیں ماجدؔ زندگانی
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
کسی کا ہاتھ خنجر ہے تو کیا ہے
مرے بس میں تو بس دستِ دُعا ہے
جھڑا ہے شاخ سے پتّا ابھی جو
یہی کیا پیڑ کا دستِ دُعا ہے
اَب اُس چھت میں بھی، ہے جائے اماں جو
بہ ہر جا بال سا اک آ چلا ہے
وُہ خود ہر آن ہے نالوں کی زد میں
شجر کو جس زمیں کا آسرا ہے
نظر کیا ہم پہ کی تُو نے کرم کی
جِسے دیکھا وُہی ہم سے خفا ہے
بڑوں تک کو بنا دیتی ہے بونا
دلوں میں جو حسد جیسی وبا ہے
جو موزوں ہے شکاری کی طلب کو
اُسی جانب ہرن بھی دوڑتا ہے
گھِرے گا جور میں جب بھی تو ملزم
کہے گا جو، وُہی اُس کی رضا ہے
تلاشِ رزق میں نِکلا پرندہ
بہ نوکِ تیر دیکھو جا سجا ہے
کہے کیا حال کوئی اُس نگر کا
جہاں کُتّا ہی پابندِ وفا ہے
وُہ پھل کیا ہے بہ وصفِ سیر طبعی
جِسے دیکھے سے جی للچا رہا ہے
بظاہر بند ہیں سب در لبوں کے
دلوں میں حشر سا لیکن بپا ہے
جہاں رہتا ہے جلوہ عام اُس کا
بہ دشتِ دل بھی وُہ غارِ حرا ہے
نمائش کی جراحت سے نہ جائے
موادِ بد جو نس نس میں بھرا ہے
نہ پُوچھے گا، بکاؤ مغویہ سا
ہمیں کس کس ریا کا سامنا ہے
نجانے نیم شب کیا لینے، دینے
درِ ہمسایہ پیہم باجتا ہے
مہِ نو سا کنارِ بام رُک کر
وُہ رُخ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے
کرا کے ماں کو حج دُولہا عرب سے
ویزا کیوں ساس ہی کا بھیجتا ہے
لگے تازہ ہر اک ناظر کو کیا کیا
یہ چہرہ آنسوؤں سے جو دھُلا ہے
ہُوا جو حق سرا، اہلِ حشم نے
اُسی کا مُنہ جواہر سے بھرا ہے
بہن اَب بھی اُسے پہلا سا جانے
وُہ بھائی جو بیاہا جا چکا ہے
مسیحاؤں سے بھی شاید ہی جائے
چمن کو روگ اَب کے جو لگا ہے
ہمیں لگتا ہے کیوں نجمِ سحر سا
وُہ آنسو جو بہ چشمِ شب رُکا ہے
پھلوں نے پیڑ پر کرنا ہے سایہ
نجانے کس نے یہ قصّہ گھڑا ہے
اُترتے دیکھتا ہوں گُل بہ گُل وُہ
سخن جس میں خُدا خود بولتا ہے
بشارت ہے یہ فرعونوں تلک کو
درِ توبہ ہر اک لحظہ کھُلا ہے
نہیں مسجد میں کوئی اور ایسا
سرِ منبر ہے جو، اِک باصفا ہے
خُدا انسان کو بھی مان لوں مَیں
یہی شاید تقاضا وقت کا ہے
دیانت سے تقاضے وقت کے جو
نبھالے، وُہ یقینا دیوتا ہے
مداوا کیا ہمارے پیش و پس کا
جہاں ہر شخص دلدل میں پھنسا ہے
لگا وُہ گھُن یہاں بدنیّتی کا
جِسے اندر سے دیکھو کھوکھلا ہے
عناں مرکب کی جس کے ہاتھ میں ہے
وُہ جو کچھ بھی اُسے کہہ دے روا ہے
کشائش کو تو گرہیں اور بھی ہیں
نظر میں کیوں وُہی بندِ قبا ہے
بغیر دوستاں، سچ پُوچھئے تو
مزہ ہر بات ہی کا کرکرا ہے
بنا کر سیڑھیاں ہم جنس خُوں کی
وُہ دیکھو چاند پر انساں چلا ہے
پڑے چودہ طبق اُس کو اُٹھانے
قدم جس کا ذرا پیچھے پڑا ہے
مری کوتاہ دستی دیکھ کر وُہ
سمجھتا ہے وُہی جیسے خُدا ہے
تلاشِ رزق ہی میں چیونٹیوں سا
جِسے بھی دیکھئے ہر دم جُتا ہے
وُہی جانے کہ ہے حفظِ خودی کیا
علاقے میں جو دشمن کے گھِرا ہے
صبا منت کشِ تغئیرِ موسم
کلی کھِلنے کو مرہونِ صبا ہے
بصارت بھی نہ دی جس کو خُدا نے
اُسے روشن بدن کیوں دے دیا ہے
فنا کے بعد اور پہلے جنم سے
جدھر دیکھو بس اِک جیسی خلا ہے
ثمر شاخوں سے نُچ کر بے بسی میں
کن انگاروں پہ دیکھو جا پڑا ہے
یہاں جس کا بھی پس منظر نہیں کچھ
اُسے جینے کا حق کس نے دیا ہے
کوئی محتاج ہے اپنی نمو کا
کوئی تشنہ اُسی کے خُون کا ہے
وطن سے دُور ہیں گو مرد گھر کے
بحمداﷲ گھر تو بن گیا ہے
ٹلے خوں تک نہ اپنا بیچنے سے
کہو ماجدؔ یہ انساں کیا بلا ہے
ماجد صدیقی

ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
جھومتے ہیں یہ گل، ہوا اور مَیں
ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں
کھوجتے ہیں اسی کی خوشبو کو
مل کے باہم سحر، صبا اور میں
کس کی رہ دیکھتے ہیں ہم دونوں
موسموں سے دُھلی فضا اور میں
صورتِ موج، مضطرب ٹھہرے
اس سے ملنے کا مدّعا اور مَیں
صید ہیں کب سے نامرادی کے
کلبلاتی ہوئی دعا اور میں
زندگی بطن میں ہے کیا ماجدؔ
جانتے ہیں یہ ہم، خدا اور مَیں
ماجد صدیقی

پّتے نے یوں بھی، پریت نبھائی ہوا کے ساتھ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
ٹہنی سے جھڑ کے رقص میں آیا، ادا کے ساتھ
پّتے نے یوں بھی، پریت نبھائی ہوا کے ساتھ
وُہ بھی بزعمِ خویش ہے، کیا کُشتۂ وفا
چل دی ہے مغویہ جو، کسی آشنا کے ساتھ
خم ہے جو سر تو، کاسۂ دستِ دُعا بلند
کیا کچھ ہے لین دین ہمارا، خُدا کے ساتھ
جن کے سروں کوڈھانپ کے، ہم تم ہیں سرخرو
درکار جھونپڑے بھی اُنہیں ہیں، رِدا کے ساتھ
ژالوں نے جب سے، کھِلتے شگوفے دئیے بکھیر
ماجدؔ نجانے کد ہے مجھے کیوں، صبا کے ساتھ
ماجد صدیقی

مگر یکساں رہے کب تک، زمانے کی ہوا جاناں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
تمہارے ٹھاٹھ بھی، اپنی جگہ سارے، بجا جاناں
مگر یکساں رہے کب تک، زمانے کی ہوا جاناں
ہماری آن جائے، ربطِ باہم میں کہ جاں جائے
نہیں ہٹ کر اب اس سے، کوئی رستہ دوسرا جاناں
جہاں بھی تم نے دیکھا والہانہ، ہم یہی سمجھے
کماں سے تیر نکلا، اور نشیمن کو چلا جاناں
اَب اُس تنکے کو بھی، مُٹھی میں دریا نے کیا اپنی
ازل سے ڈوبنے والوں کا تھا جو، آسرا جاناں
مہک کا اور صبا کا تھا ملن، گاہے ملاپ اپنا
دلانے یاد آتی ہے ہمیں، کیا کچھ صبا جاناں
اُسی کی بُھربُھری بنیاد سے چمٹا ہے اب تک یہ
وُہی جو قول ماجدؔ کو، کبھی تم نے دیا جاناں
ماجد صدیقی

رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کافی ہے یہی، دل کو سزا اور نہ دینا
رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا
پہلے ہی قفس میں ترے احسان بہت ہیں
گھاؤ کوئی، اے موجِ صبا! اور نہ دینا
کیا درد بٹاؤ گے کہ جس سِحر میں ہم ہیں
پتھر ہی نہ ہو جائیں صدا اور نہ دینا
صنّاع کہیں خود نہ کھنچا آئے زمیں پر
اِس چاند سے چہرے کو جِلا اور نہ دینا
حاصل ہے جو تجھ سے ہمیں پھولوں کی مہک سی
اُس قرب کی مہلت کو گھٹا اور نہ دینا
ہے اِس کی شرافت ہی خسارے کو کہاں کم
ماجد کو بزرگی کی رِدا اور نہ دینا
ماجد صدیقی

اپنے اندر کے اُس شخص کو دیکھتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
کاش! مَیں جس کے اُوپر ہوں اِک خوں سا
اپنے اندر کے اُس شخص کو دیکھتا
پاگلوں کی طرح وہ تجھے چاہنا
تھا مری سوچ کا وہ بھی اِک زاویہ
مُرغ تھا زد پہ تِیرِ قضا کی مگر
آشیاں تھا کھُلے بازوؤں دیکھتا
ساغرِ مئے پیے، ساتھ خوشبو لیے
در بدر ٹھوکریں کھا رہی تھی ہوا
وہ تو وہ اُس کے ہونے کا احساس بھی
تھا مہک ہی مہک، رنگ ہی رنگ تھا
چاند نکلا ہے ڈوبے گا کچھ دیر میں
چاہیئے بھی ہمیں اِس سمے اور کیا
کیسے بخشے گا آئینِ گلشن ہمیں
ہم نے مَسلا اِسے، دل کہ اِک پھُول تھا
عمر بھر ہم بھی خوشیوں کے منکر رہے
شکر ہے یہ بھی اِک مرحلہ طے ہوا
کیوں ہمیں چھُو کے ماجدؔ گزرنے لگی
آگ میں کیوں جھُلسنے لگی ہے صبا
ماجد صدیقی

کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
جو مرحلۂ زیست ہے پہلے سے کڑا ہے
کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے
جو آنکھ جھکی ہے ترے سجدے میں گرے ہے
جو ہاتھ تری سمت اُٹھا، دستِ دُعا ہے
اُس درد کا ہمسر ہے ترا پیار نہ تُو ہے
تجھ سے کہیں پہلے جو مرا دوست ہوا ہے
آتا ہے نظر اور ہی اَب رنگِ گلستاں
خوشبُو ہے گریزاں تو خفا موجِ صبا ہے
دل ہے سو ہے وابستۂ سنگِ درِ دوراں
اور اِس کا دھڑکنا ترے قدموں کی صدا ہے
ماجدؔ ہے کرم برق کا پھر باغ پہ جیسے
پھر پیڑ کے گوشوں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے
ماجد صدیقی

حرف لکھے کُچھ، بادِ صبا نے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
پھول کہو یا دل کے فسانے
حرف لکھے کُچھ، بادِ صبا نے
برف سے اُجلے چہروں والے
آ جاتے ہیں جی کو جلانے
داغ رُخِ مہ کا دُکھ میرا
میری حقیقت کون نہ جانے
فکر و نظر پر دھُول جمائی
آہوں کی بے درد ہوا نے
دو آنکھوں کے جام لُنڈھا کر
دو ہونٹوں کے پھُول کھِلانے
دونوں ہاتھ نقاب کی صُورت
رکھنے، اور رُخ پر سے ہٹانے
ماجدؔ انجانے میں ہم بھی
بیٹھ رہے کیوں جی کو جلانے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑