تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

شہریار

مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 158
بہم رہے نہ سدا قُربِ یار کا موسم
مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم
نشہ حیات کا سارا اُسی میں پنہاں تھا
کسی بدن پہ جو تھا اختیار کا موسم
نجانے کیوں ہے یتیموں کے دیدہ و دل سا
جہاں پہ ہم ہیں اُسی اِک دیار کا موسم
ہے قحطِ آب کہیں، اور قحطِ ضَو ہے کہیں
نگر پہ چھایا ہے کیا شہریار کا موسم
جو چاہیے تھا بہ کاوش بھی وہ نہ ہاتھ آیا
محیطِ عمر ہُوا انتظار کا موسم
اُنہیں بھی فیض ہمیں سا ملا ہے دریا سے
اِدھر ہی جیسا ہے دریا کے پار کا موسم
گزرنا جان سے جن جن کو آ گیا ماجد
نصیب اُنہی کے ہُوا اَوجِ دار کا موسم
نذرفیض
ماجد صدیقی

گلاب رکھ کے کتابوں میں یار، بُھول گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
نصابِ ربط کے نقش و نگار بُھول گئے
گلاب رکھ کے کتابوں میں یار، بُھول گئے
گھروں سے لے کے گھروں تک انا و نخوت کی
اُڑی وہ گرد کہ چہرے نکھار بُھول گئے
ہوائے تُند نے جھٹکے کچھ اس طرح کے دئیے
ہمارا کس پہ تھا کیا اختیار؟ بُھول گئے
جنہیں گماں تھا نمو اُن تلک بھی پہنچے گی
وہ کھیت مرحلۂ انتظار، بُھول گئے
نہ جان پائے کہ مچلے گا، پُھول چہروں میں
یہ ہم کہ خوئے دلِ نابکار، بُھول گئے
قدم کدھر کو ،ارادے کدھر کے تھے اُن کے
یہ بات رن میں سبھی شہسوار، بُھول گئے
فضائے تخت ثمر بار دیکھ کر ماجدؔ
جو روگ شہر کو تھے، شہریار، بُھول گئے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑