تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سہانے

بکھریں سب تسبیح کے دانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 227
وقت نہ پھلنے دے یارانے
بکھریں سب تسبیح کے دانے
تعبیریں سب پا لیتے ہیں
خدشے، خواہشیں، خواب سہانے
کم اندیش جسے سچ سمجھیں
دل کیوں ایسی بات نہ مانے
سچّا ایک ہی رَٹ پر قائم
بدنیّت کے لاکھ بہانے
اشکوں میں جو راز چھپے ہیں
کب لفظوں میں لگے سمانے
ماجد اک اک کرکے بچھڑے
جتنے بھی تھے یار پُرانے
ماجد صدیقی

سینت کے رکھیں، اور اب خواب سہانے کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
دیکھ لئے ہیں، اپنے کیا بیگانے کیا
سینت کے رکھیں، اور اب خواب سہانے کیا
دیکھو آنکھ جما کر، مکر کے مکڑے نے
ہر سُو پھیلائے ہیں تانے بانے کیا
بادل کی یلغار سے، نام پہ رحمت کے
تنکا تنکا، ٹوٹ گرے کاشانے کیا
سوچو بھی، جلتی بگھیا کی آنچ لئے
جھونکے ہم کو آئے ہیں، بہلانے کیا
چڑیاں نگلیں گے، چوزوں پر جھپٹیں گے
شہ زوروں کے ماجدؔ اور نشانے کیا
ماجد صدیقی

پھُول مرضی کے کسی کو نہ کھلانے دینا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
آگ ہونٹوں پہ نہ دل کی کبھی آنے دینا
پھُول مرضی کے کسی کو نہ کھلانے دینا
چکھنے دینا نہ کبھی لمحۂ موجود کا رس
جب بھی دینا ہمیں تم خواب سُہانے دینا
جس کی تعمیر میں کاوش کا مزہ اُس کو مِلے
تُم نہ بالک کو گھروندا وُہ بنانے دینا
روشنی جس کے مکینوں کو بصیرت بخشے
ایسی کٹیا میں دیا تک نہ جلانے دینا
راندۂ خلق ہے، جو پاس تمہارا نہ کرے
درس اب یہ بھی کسی اور بہانے دینا
سنگ ہو جاؤ گے حق بات ہے جس میں ماجدؔ
ایسی آواز نہ تم شہ کے سرہانے دینا
ماجد صدیقی

جھونکے آگ بجھانے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
ہم پہ کرم فرمانے آئے
جھونکے آگ بجھانے آئے
ہمیں پرانا ٹھہرانے کو
کیا کیا نئے زمانے آئے
خلق، وہ کارآمد بچّہ ہے
شاہ جسے بہلانے آئے
قیس کو جو ازبر تھا،ہم بھی
درس وہی دہرانے آئے
جنہیں بھُلاتے، خود کو بھُولے
لب پہ اُنہی کے، فسانے آئے
اپنی جگہ تھے جو بھی سہانے
دن پھر وہ نہ سہانے آئے
جن کو دیکھ کے تاپ چڑھے وہ
ماجد ہمیں منانے آئے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑