تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سہانی

نظر کیونکر نہ رکھیں اُس پہ جو رت بھی سہانی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
ہمیں کاہے کو ہر پل پت جھڑوں سے بدگمانی ہے
نظر کیونکر نہ رکھیں اُس پہ جو رت بھی سہانی ہے
تعفّن آشنا ٹھہرے نہ ہو نابُود نظروں سے
وہ پانی خاک پر جس کو بہم پیہم روانی ہے
سحر کا دوپہر کا اور زوالِ شام کا منظر
تری ہو یا مری سب کی بس ایسی ہی کہانی ہے
حضور اپنے جو ہم جنسوں سے نت سجدے کراتا ہے
زمینی مت کہو اُس کو وہ حضرت آسمانی ہے
کسی کے جھوٹ کو تم جھوٹ ثابت کرکے دیکھو تو
سنو پھر اس سے کیا کیا پاس اُس کے گلفشانی ہے
وہ کنجشک و کبوتر ہو کہ ماجِد فاختہ اُس کے
پر و بازو میں لرزہ امن خواہی کی نشانی ہے
ماجد صدیقی

اور پھر وہ، کہ سنی تم نے زبانی میری

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
کیوں رُلاتی نہ تمہیں پیار کہانی میری
اور پھر وہ، کہ سنی تم نے زبانی میری
طاقِنسیاں میں کہیں رکھ کے اُسے بھول گئے
ا نگلیوں میں جو سجائی تھی نشانی میری
آنچ سی دینے لگا ہجر کا صحرا جب سے
اور مرجھانے لگی عمر سہانی میری
برقِ فرقت کی گرج خوف دلاتی ہے یہی
راکھ کا ڈھیر نہ ہو جائے جوانی میری
مجھ کو دہرانے پہ مجبور نہ کرنا جاناں !
جاں سے جانے کی ہے جو ریت پرانی میری
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑