تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سمانے

بکھریں سب تسبیح کے دانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 227
وقت نہ پھلنے دے یارانے
بکھریں سب تسبیح کے دانے
تعبیریں سب پا لیتے ہیں
خدشے، خواہشیں، خواب سہانے
کم اندیش جسے سچ سمجھیں
دل کیوں ایسی بات نہ مانے
سچّا ایک ہی رَٹ پر قائم
بدنیّت کے لاکھ بہانے
اشکوں میں جو راز چھپے ہیں
کب لفظوں میں لگے سمانے
ماجد اک اک کرکے بچھڑے
جتنے بھی تھے یار پُرانے
ماجد صدیقی

تم بھی اے کاش! مرے بھاگ جگانے آتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
ہمرہِ بادِ صبا پُھول کِھلانے آتے
تم بھی اے کاش! مرے بھاگ جگانے آتے
چاند کے قرب سے بے کل ہو سمندر جیسے
ایسی ہلچل مرے دل میں بھی مچانے آتے
جیسے بارش کی جگہ پُھول پہ شبنم کا نزول
تم بھی ایسے میں کسی اور بہانے آتے
رنگِرخسار سے دہکاتے شب و روز مرے
آتشِگل سے مرا باغ جلانے آتے
دینے آتے مجھے تم صبحِبہاراں کی جِلا
اور خوشبو سا رگ و پے میں سمانے آتے
ماجد صدیقی

پھول کیوں شاخ سے ٹوٹ جانے لگا سوچنا چاہیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
باغ پر وقت کیسا یہ آنے لگا سوچنا چاہیے
پھول کیوں شاخ سے ٹوٹ جانے لگا سوچنا چاہیے
وہ کہ جو جھانکتا تھا بہاروں سے بھی چاند تاروں سے بھی
جذبۂ دل وہ کیسے ٹھکانے لگا سوچنا چاہیے
وہ کہ جو بندشوں سے بھی دبتا نہ تھا جو سنبھلتا نہ تھا
پھر وہی کیوں نظر میں سمانے لگا سوچنا چاہیے
ماجد صدیقی

لفظ مُنہ پر کوئی تو آنے دو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
گنگُ جذبوں کو چہچہانے دو
لفظ مُنہ پر کوئی تو آنے دو
پھینک کر اب کے آخری پتّا
کھیل کو رُخ نیا دلانے دو
سیج پر شاخِ آرزُو سے گری
پتّیاں تُم مجھے بچھانے دو
وقت کے جلترنگ سے نہ ڈرو
اِس کو یہ ساز اب بجانے دو
جن پہ سُورج کبھی نہیں اُبھرا
وُہ اُفق اب کے جگمگانے دو
یہ اعادہ ہی بچپنے کا سہی
کُچھ گھروندے مگر بنانے دو
اشک دے گا پتہ ضرور اپنا
خاک میں یہ نمی سمانے دو
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑