تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سر

یہ کیا ؟ سوار’ دوش پر ہوا کے کر دیا گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 222
شجر پہ تو نہ نم تلک بھی نقدِ زر دیا گیا
یہ کیا ؟ سوار’ دوش پر ہوا کے کر دیا گیا
یہ اور بات رہنما بجز شغال کچھ نہیں
ہمیں دیا گیا ہے جو بھی شیرِ نر دیا گیا
ہمِیں ہیں عزم کے سوا’جنہیں نہ کچھ عطا ہوا
جنہیں نہ اور کچھ بھی توشہءِ سفر دیا گیا
جنہیں بہم ہے برتری’وہ ہم سے بس یہی کہیں
جھکے تو ہو فرازتر ‘ہمیں وہ سر دیا گیا
کبھی نہ ہم نے آنکھ کھول کر نگاہ کی کہیں
یہ ہم جنہیں کبوتروں سا نامہ بر دیا گیا
کھلی ہے جب بھی آنکھ’دہشتیں پڑی ہیں دیکھنی
ہمیں نہ کوئی اور مژدہءِ سحر دیا گیا
تجھے ہے ماجِدِ حزیں عطا وہ’ لطفِ خاص ہے
ولائتوں سے کم نہیں جو فکرِ تر دیا گیا
ماجد صدیقی

ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 202
جگہ جگہ آنکھوں میں چُبھتے منظر ہیں
ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں
گُن جتلاتے ہیں کیوں ہم، آقاؤں سے
ہم جو حلقہ بگوشی ہی کے خُوگر ہیں
خودی کمائی ہے کیا؟چھینا جھپٹی سے
اوج نشینوں نے، جو سارے خود سر ہیں
عدل گہوں پر بھی ہے گماں زندانوں کا
عادل تک بھی جہاں کے اسیرانِ زر ہیں
نرخوں اور رویّوں تک میں دہشت کے
چُھپے ہُوئے کیا کیا پُھنکارتے اژدر ہیں
کب سے چِھنی ہے اِن سے جانے خوش خُلقی
شہر شہر کیونکر اُجڑے، بستے گھر ہیں
کانوں میں تو گُونج صدائے فلاح کی ہے
حال ہمارے ہی ماجد کیوں ابتر ہیں
ماجد صدیقی

بہ دوشِ باد ناچنے سوار کر دیا گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 182
شجر سے جھڑتے برگ کو یہی ہُنر دیا گیا
بہ دوشِ باد ناچنے سوار کر دیا گیا
یہ اور بات رہنما بجز شغال کچھ نہیں
ہمیں دیا گیا ہے جو بھی شیرِ نر دیا گیا
ہمِیں ہیں عزم کے سوا، جنہیں نہ کچھ عطا ہوا
جنہیں نہ زاد کوئی بھی، پئے سفر دیا گیا
جنہیں بہم ہے برتری، وہ ہم سے بس یہی کہیں
’جھکے تو ہو فرازتر، تمہیں وہ سر دیا گیا،
پیمبری کے باب میں جو زیبِ گوش و جیب ہے
کبوتروں سا خوب ہے یہ نامہ بر دیا گیا
کھلی ہے جب بھی آنکھ، دہشتیں پڑی ہیں دیکھنی
ہمیں نہ کوئی اور مژدۂ سحر دیا گیا
جو ہو طلب تو اور کیا ہو ماجِدِحزیں! تُجھے
ولائتوں سے کم نہیں جو فکرِ تر دیا گیا
ماجد صدیقی

وہ معرکہ ٔ عشق تھا جو سر نہ ہُواتھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 177
جب تک وہ بدن شَوق کو ازبر نہ ہُواتھا
وہ معرکہ ٔ عشق تھا جو سر نہ ہُواتھا
جمہور کے ہاتھوں سے چِھنا تخت نہ جب تک
دل آمر و فرعون کا پتّھر نہ ہُواتھا
جب جان پہ بن آئی تو ظالم بھی پُکارا
ایسا تو بپا کوئی بھی محشر نہ ہُواتھا
بیداد وہ کرتا رہا ہر داد کے بدلے
جب تک کہ حساب اُس کا برابر نہ ہُواتھا
ٹیکسی اُسے مِل جائے گی، بی اے جو کرے گا
اعزاز یہ پہلے تو میّسر نہ ہُواتھا
یہ دیس لُٹا ہے تو مسیحاؤں کے ہاتھوں
جتنا ہے یہ اب اتنا تو ابتر نہ ہُواتھا
تُو نے تو تب تک کبھی آگے کی نہ ٹھانی
جبتک ترا ماجد کوئی ہمسر نہ ہُواتھا
ماجد صدیقی

آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
کھُلتے ہوئے لگتے ہیں دریچے جو نظر کے
آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے
صُورت کوئی صّیاد نے چھوڑی ہی نہ باقی
میں سوچ رہا تھا ابھی امکان مفر کے
ہاں بھیک بھی پاؤگے تو ٹھوکر بھی کہیں سے
مصرف ہیں ابھی اور کئی کاسۂ سر کے
پھل ضربِ سرِ پا سے گرے صُورتِ باراں
اُترا تو مرے حصے میں پتّے تھے شجر کے
پہنچیں گے تہِ دام جو نکلے ہیں گُرِسنہ
منزل کا پتہ دیتے ہیں انداز سفر کے
کنکر وہ گرائے ہیں ابابیلِ جنوں نے
عاجز ہوئے انبوہ سبھی اہلِ خبر کے
کچھ دیکھ تو لینا تھا یہ کس شہر میں ماجدؔ
خالق ہُوئے تم شعر و سخن ایسے ہُنر کے
ماجد صدیقی

گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
فضائے تار میں تنہا نفس سفر کرتے
گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے
ہے اختلافِ نظر وجہِ خاموشی، ورنہ
ہم اُس کے پیار کا چرچا نگر نگر کرتے
یہ بات قرب کے منصب پہ منحصر تھی ترے
بچا کے رکھتے کہ دامن کو ہم بھی تر کرتے
درِ قفس پہ رُتیں دستکیں تو دیتی رہیں
ہُوا نہ ہم سے کہ ہم فکرِ بال و پر کرتے
جو تو نہیں تھا تو جل جل کے خود ہی بجھتے رہے
ہم اور نذر کسے شعلۂ نظر کرتے
تری نظر کا اشارہ نہ مل سکا، ورنہ
وہ اوج کون سا تھا ہم جسے نہ سر کرتے
ابھی تلک تو نہ مخدوم ہم ہوئے ماجدؔ
اگرچہ عُمر ہوئی خدمتِ ہنر کرتے
ماجد صدیقی

تِیر برسے ہمیں پر بھرے شہر میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
تھے ہمیں غم کے خوگر بھرے شہر میں
تِیر برسے ہمیں پر بھرے شہر میں
پھر زدستِ ہوس ہے سبک ہو چلا
جُھک گیا پھر کوئی سر بھرے شہر میں
کوئی آذر تو ہو گا ہمارے لئے
ہم کہ ٹھہرے ہیں پتّھر بھرے شہر میں
کس بھیانک خبر کا اثر مجھ پہ تھا
میں ہی تھا جیسے ششدر بھرے شہر میں
خوف کچھ دستکوں سے بڑھا اور بھی
کھُلنے پایا نہ اِک در بھرے شہر میں
کیا غضب ہے ترستا ہے پہچان کو
تجھ سا ماجدؔ سخن وَر بھرے شہر میں
ماجد صدیقی

ٹھکانہ تھا جہاں اب وُہ شجر ،اچّھا نہیں لگتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
مری صورت ہے جو بے بال و پر ، اچّھا نہیں لگتا
ٹھکانہ تھا جہاں اب وُہ شجر ،اچّھا نہیں لگتا
ذرا سا بھی جو چہرے کو تکدّر آشنا کردے
اُنہیں ہم سا کوئی شوریدہ سر اچّھا نہیں لگتا
بہت کم گھر نفاذِ جبر پر چُپ تھے، سو اچّھے تھے
مگر یوں ہے کہ اب سارا نگر اچّھا نہیں لگتا
قدم بے سمت ہیں اور رہنما منصب سے بیگانہ
ہمیں درپیش ہے جو وُہ سفر اچّھا نہیں لگتا
مثالِ کودکاں بہلائے رکھنا بالغوں تک کو
ہنر اچُھا ہے لیکن یہ ہنر اچّھا نہیں لگتا
چہکنا شام کو چڑیوں کا ماتم ہے گئے دن کا
مگر ماتم یہ ہنگامِ سحر اچّھا نہیں لگتا
گلوں نے جن رُتوں سے ہیئتِ پیغام بدلی ہے
غضب یہ ہے ہَوا سا نامہ بر اچّھا نہیں لگتا
کہیں کیونکر نہ ماجِد زر سے ہی جب سُرخیٔ خوں ہے
نہیں لگتا ہمیں فقدانِ زر، اچّھا نہیں لگتا
ماجد صدیقی

کھِل اُٹھا ہے حاصلِ شر دیکھ کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
وُہ مرے ٹُوٹے ہوئے پر دیکھ کر
کھِل اُٹھا ہے حاصلِ شر دیکھ کر
حرفِ حق پر ہے گماں کُچھ اور ہی
ہاتھ میں بچّوں کے پتھر دیکھ کر
کیا کہوں کھٹکا تھا کس اِنکار کا
کیوں پلٹ آیا ہُوں وُہ در دیکھ کر
آنکھ میں رقصاں ہے کیا سیندھور سا
آ رہا ہوں کس کا پیکر دیکھ کر
بال آنے پر جُڑے شیشہ کہاں
کہہ رہا ہے آئنہ گر، دیکھ کر
یاد آتا ہے وُہ کم آمیز کیوں
جیب میں مزدور کی زر دیکھ کر
دیکھنا ماجدؔ، دیا بن باس کیا
موج کو دریا نے خود سر دیکھ کر
ماجد صدیقی

ہُوا ہے آتشیں صحنِ نظر، آہستہ آہستہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
سرِخروار مچلے ہیں شرر آہستہ آہستہ
ہُوا ہے آتشیں صحنِ نظر، آہستہ آہستہ
اُجڑنے کی خبر ٹہنی سے ٹہنی تک نہیں پہنچی
چمن میں سے ہُوا مِنہا، شجر آہستہ آہستہ
ہُوا پھر یوں، جنوں پر عقل نے پہرے بِٹھا ڈالے
دِبک کر رہ گئے آشفتہ سر، آہستہ آہستہ
نظر میں ہے بہت بے رنگ دن کو اور بہ شب، روشن
فلک پر چاند کا ماجدؔ سفر آہستہ آہستہ
ماجد صدیقی

پھر نہ آیا نظر میں منظر وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 131
مہرباں جس گھڑی تھا ہم پر وُہ
پھر نہ آیا نظر میں منظر وُہ
تھا جسے اختلاف ناحق سے
اب کہاں پاس اپنے بُوذرؑ وُہ
جس کے دیکھے سے پیاس بجھتی ہو
ملنے آئے گا ہم سے کیونکر وُہ
میں کہ مس ہوں جہاں میں مجھ کو بھی
آنچ دیتا ہے کیمیا گر وُہ
جب سے پیکر مہک اُٹھا اُس کا
بند رکھتا ہے روزن و دَر وُہ
کب سے جاری ہے یہ مہم اپنی
ہم سے لیکن نہیں ہُوا سر وُہ
اُس سے ماجدؔ! کہاں کا سمجھوتہ
موم ہیں ہم اگر تو پتّھر وُہ
ماجد صدیقی

جو گل بھی ہے چمن میں وہ پتّھر دکھائی دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
جانے یہ کس کے سحر کا منظر دکھائی دے
جو گل بھی ہے چمن میں وہ پتّھر دکھائی دے
کیسی یہ لو چلی کہ سرِ دستِ آرزو
اٹھتی ہے جو بھی لہر وہ اژدر دکھائی دے
کھودے اُسی کے پیروں تلے کی زمین وہ
جس کم نگاہ کو کوئی ہم سر دکھائی دے
ایسا ہے کون بت نہ تراشے جو حرص کے
دیکھا ہے جس کسی کو وہ آذر دکھائی دے
محبوس تیتروں پہ جو بلّی کو ہے نصیب
وہ جبرِ ناروا اُسے کیونکر دکھائی دے
ماجدؔ جسے بھلائیں گل و مہ کو دیکھ کر
چہرہ وہ صبح و شام برابر دکھائی دے
ماجد صدیقی

وا جس کے لیے رہ گیا دامان ، شرر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
دھوکا تھا ہر اِک برگ پہ ٹوٹے ہوئے پر کا
وا جس کے لیے رہ گیا دامان ، شرر کا
میں اشک ہوں، میں اوس کا قطرہ ہوں، شرر ہوں
انداز بہم ہے مجھے پانی کے سفر کا
کروٹ سی بدلتا ہے اندھیرا تو اُسے بھی
دے دیتے ہیں ہم سادہ منش، نام سحر کا
تہمت سی لئے پھرتے ہیں صدیوں سے سر اپنے
رُسوا ہے بہت نام یہاں اہلِ ہُنر کا
قائم نہ رہا خاک سے جب رشتۂ جاں تو
بس دھول پتہ پوچھنے آتے تھی شجر کا
جو شاہ کے کاندھوں کی وجاہت کا سبب ہے
دیکھو تو بھلا تاج ہے کس کاسۂ سر کا
اشکوں سے تَپاں ہے کبھی آہوں سے خنک ہے
اک عمر سے ماجد یہی موسم ہے، نگر کا
ماجد صدیقی

ہاتھ دستِ یزید میں جو نہ دے حق سرائی میں اپنا سر دے دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
خلق چاہے اُسے حسین کوئی، وقت با صورتِ دگر دے دے
ہاتھ دستِ یزید میں جو نہ دے حق سرائی میں اپنا سر دے دے
اہلِ حق کو جو فتحِ مکہ دے اے خدا تجھ سے کچھ بعید نہیں
اشک ہیں جس طرح کے آنکھوں میں دامنوں کو وہی گہر دے دے
ہوں بھسم آفتوں کے پرکالے بُوندیوں میں بدل چلیں ژالے
جو بھی واماندگانِ گلشن ہیں رُت انہیں پھر سے بال و پر دے دے
لَوث جس کونہ چھُو کے گزری ہو جس میں خُو خضرِ دستگیر کی ہو
جس کے چہرے پہ لَو ضمیر کی ہو کوئی ایسا بھی رہبر دے دے
ہو مبارک ستم عقابوں کو کرگسوں کو نصیب آز رہے
فاختاؤں کو جو بہم ہے یہاں زندہ رہنے کا وہ ہُنر دے دے
ماجد صدیقی

آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر، لے کے آ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
مَیں اُس سے چاہتوں کا ثمر، لے کے آ گیا
آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر، لے کے آ گیا
دیکھو تو کیسے چاند کی اُنگلی، پکڑ کے مَیں
اُس شوخ سے ملن کی سحر، لے کے آ گیا
کس زعم میں نجانے، منانے گیا اُسے
تہمت سی ایک، اپنے ہی سر، لے کے آ گیا
قصّہ ہی جس سے کشتِ تمّنا کا، ہو تمام
خرمن کے واسطے وُہ شرر، لے کے آ گیا
اَب سوچتا ہوں اُس سے، طلب میں نے کیا کیا
ماجدؔ یہ مَیں کہ زخمِ نظر لے کے آ گیا
ماجد صدیقی

حساب ظالم و مظلوم کا برابر ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
دہن میں نیولے کے دیکھئے گا اژدر ہے
حساب ظالم و مظلوم کا برابر ہے
ندی میں برگ پہ چیونٹی ہے اور اِدھر ہم ہیں
کہ جن کے سامنے آلام کا سمندر ہے
سفر میں صبر کی ناؤ ہمیں جو دی اُس نے
ہمارے واسطے سرخاب کا یہی پَر ہے
چلا نہیں گل و مہتاب کو پتہ اتنا
ہمارے گھر بھی کوئی بام ہے کوئی در ہے
ابد تلک کو جو زیبِ سناں ہوا ماجدؔ
نہیں حسینؑ کا شمر و یزید کا سر ہے
ماجد صدیقی

جلوہ ترا برنگِ دِگر دیکھتا رہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
گہ تجھ کو، گاہ نورِ سحر دیکھتا رہوں
جلوہ ترا برنگِ دِگر دیکھتا رہوں
دِل کے دئیے سے اُٹھتی رہیں یاد کی لَویں
تیرا جمال شعلہ بہ سر دیکھتا رہوں
پل پل برنگِ برق ترا سامنا رہے
رہ رہ کے اپنی تابِ نظر دیکھتا رہوں
پہروں رہے خیال ترا ہمکنار دل
دن رات تیری راہگزر دیکھتا رہوں
ماجدؔ سناؤں شہر بہ تشریح اب کِسے
اِس سے تو آپ اپنا ہنر دیکھتا رہوں
ماجد صدیقی

چاند اُبھرے گا مگر آخرِ شب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
جگمگائیں گے نگر آخر شب
چاند اُبھرے گا مگر آخرِ شب
سانس کی نَے سے پکارے گا تجھے
غم باندازِ دِگر آخرِ شب
طے کرے گی رُخِ جاناں کی ضیا
دل سے آنکھوں کا سفر آخر شب
خامشی گرد کی صورت پس و پیش
چاندنی خاک بہ سر آخرِ شب
پرتوِ کاہکشاں ٹھہرے گی
پیار کی راہگزر آخرِ شب
دل کو ویراں ہی نہ کر دے ماجدؔ
آرزوؤں کا مفر آخرِ شب
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑