تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سا

میں آئنہ ہوں ٹھیک سے چہرہ بتاؤں گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
ہو جس طرح کا۔۔ہاں اُسے ویسا بتاؤں گا
میں آئنہ ہوں ٹھیک سے چہرہ بتاؤں گا
دیکھو! عزیز عزّتِ انساں نہ ہو جسے
خلقت میں، میں اُسے ہی کمینہ بتاؤں گا
شوہرہے محترم، تو ہے بیوی بھی محترم
میں جاں نثار اُس کو بھی ماں سا بتاؤں گا
جرّاحِ بے مثال جو اِس دَورِ نو کے ہیں
ہر حال میں اُنہیں میں مسیحا بتاؤں گا
خلقت کی رہ سے جو بھی ہٹائیں رکاوٹیں
میں اُن سبھوں کو عہد کا آقا، بتاؤں گا
بہرِ عوام نظم ہو ڈھیلا جہاں، وہاں
ہر دل کو آئنوں سا شکستہ بتاؤں گا
قاری ہی خوب و زشت کہیں جوکہیں، کہیں
ماجد سخن کے باب میں میں کیا بتاؤں گا
ماجد صدیقی

کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
درِ ہجراں وہ دل پر آ کھُلا ہے
کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے
جدھر ہے زندگی اور موت بھی ہے
پرندہ پھر اُسی جانب اُڑا ہے
اُدھر مہتاب سا چہرہ ہے اُس کا
اِدھر بے چین ساگر شوق کا ہے
جلائے جسم و جاں کو دمبدم جو
پسِ خواہش وہ پیکر آگ سا ہے
گیا ہے اَب کے یُوں وہ داغ دے کر
کہ جیسے پیڑ سے پتا گرا ہے
یہ وہ جانیں جنہیں نسبت ہے اُس سے
ہمیں کیا وہ بُرا ہے یا بھلا ہے
زباں پر نام ہے اُس کا کہ ماجدؔ
سرِ مژگاں کوئی آنسو رُکا ہے
ماجد صدیقی

اُس پر کیا لکھا جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اُس پر کیا لکھا جانا ہے
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بِکتا ہے
کون ہے گالی سُن کر جس کے
ہونٹوں سے امرت ٹپکا ہے
دشتِ طلب میں بِن کُتّوں کے
کس کے ہاتھ شکار لگا ہے
اپنی چال سلامت رکھنے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
کُود کے جلتی آگ میں دیکھو
پروانہ گلزار بنا ہے
ٹھیک ہے گر بیٹا یہ سوچے
اُس نے باپ سے کیا پایا ہے
پکڑا جانے والا ہی کیوں
تنہا دم مجرم ٹھہرا ہے
جس نے بھی جاں بچتی دیکھی
تنکوں تک پر وہ اٹکا ہے
مجرم نے پچھلی پیشی پر
جو بھی کہا اُس سے مُکرا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچّے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
پیڑ زبانوں کو لٹکائے
دشت سے جانے کیا کہتا ہے
دیواروں سے ڈرتا ہو گا
کہنے والا کیوں ٹھٹکا ہے
موجِ الم نے کھول کے بازو
مجھ کو جیسے بھنچ لیا ہے
اُتنا ہی قد کاٹھ ہے اُس کا
جتنا جس کو ظرف ملا ہے
کس کو اَب لوٹانے جائیں
گردن میں جو طوق پڑا ہے
ٹہنی عاق کرے خود اُس کو
پھول وگرنہ کب جھڑتا ہے
جینے والا جانے کیونکر
موت کے در پر آن کھڑا ہے
صحرا کی بے درد ہوا نے
بادل کو کب رُکنے دیا ہے
دیکھوں اور بس دیکھو اُس کو
جانے اُس تصویر میں کیا ہے
کہنے کی باتیں ہیں ساری
زخمِ رگِ جاں کب بھرتا ہے
رُت کی خرمستی یہ جانے
پودا کیسے پیڑ بنا ہے
برق اور رعد کے لطف و کرم سے
گلشن کو کب فیض ملا ہے
لوٹایا اِک ڈنک میں سارا
سانپ نے جتنا دُودھ پیا ہے
ربط نہیں اُس سے اتنا بھی
شہر میں جتنا کچھ چرچا ہے
بند کلی چُپ رہنا اُس کا
لب کھولے تو پھولوں سا ہے
برگ و ثمر آنے سے پہلے
شاخ نے کیا کیا جبر سہا ہے
گُل برساتا ہے اوروں پر
وُہ جو زخم مجھے دیتا ہے
کوہِ قاف سے اِس جانب وہ
ڈھونڈوں بھی تو کب ملتا ہے
اُس کی دو رنگی مت پُوچھو
کالر پر جو پھول سجا ہے
رسّی کی شِشکار ہے پیچھے
کھیت کنارے جال بِچھا ہے
ڈس لیتا ہے سانپ جسے بھی
رَسّی تک سے وہ ڈرتا ہے
قبرپہ جل مرنے والے کی
ایک دیا اب تک جلتا ہے
بانس انار سے آنکھ ملائے
اپنی قامت ناپ رہا ہے
موسیٰ ہر فرعون کی خاطر
مشکل سے نت نت آتا ہے
سارے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
گلیوں میں اک حشر بپا ہے
دھڑکن دھرکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دُکھ بانٹا ہے
کرنا آئے مکر جسے بھی
زر کے ساتھ وُہی تُلتا ہے
خون میں زہر نہیں اُترا تو
آنکھوں سے پھر کیا رِستا ہے
ہم اُس سے منہ موڑ نہ پائے
پیار سے جس نے بھی دیکھا ہے
کون ہے وہ جو محرومی کی
تہمت اپنے سر لیتا ہے
کھُلتی ہے ہر آنکھ اُسی پر
غنچہ جب سے پھول بنا ہے
انساں اپنا زور جتانے
چاند تلک پر جا نکلا ہے
دل نے پھر گُل کھِل اُٹھنے پر
نام کسی کا دہرایا ہے
وقت صفائی مانگ کے ہم سے
کاہے کو مُنہ کھُلواتا ہے
ہم شبنم کے قطروں پرہی
سورج داتا کیوں جھپٹا ہے
فصلِ سکوں پر بُغض یہ کس کا
مکڑی بن کر آ ٹوٹا ہے
دل تتلی کا پیچھا کرتے
کن کانٹوں میں جا اُلجھا ہے
زخم اگر بھر جائے بھی تو
نقش کہاں اُس کا مٹتا ہے
انجانوں سا مجھ سے وُہ پوچھے
اُس سے مرا دل مانگتا کیاہے
پھول جھڑیں یا پتے سُوکھیں
موسم نے یہ کب دیکھا ہے
اَب تو دل کی بات اٹھاتے
لفظ بھی چھلنی سے چھنتاہے
تجھ بن جو منظر بھی دیکھیں
آنکھ میں کانٹوں سا چُبھتا ہے
کانوں کے دَر کھُل جائیں تو
پتھر تک گویا لگتا ہے
آنکھوں کی اِس جھیل میں جانے
کون کنول سا لہراتا ہے
دور فلک پر کاہکشاں کا
رنگ ترے سپنوں جیسا ہے
گلشن والے کب جانیں یہ
پنجرے میں دن کب ڈھلتا ہے
صبح اُسی کے صحن میں اُتری
جس کا دامن چاک ملا ہے
جانے کس خرمن پر پہنچے
تابہ اُفق جو کھیت ہرا ہے
مَیں وہ غار تمّنا کا ہوں
سورج جس سے رُوٹھ گیا ہے
جانے کیا کیا زہر نہ پی کر
انساں نے جینا سیکھا ہے
بحر پہ پُورے چاند کے ہوتے
پانی کیوں ٹھہرا ٹھہرا ہے
وہ کب سایہ سینت کے رکھے
رستے میں جو پیڑ اُگا ہے
اُس کا حسن برابر ہو تو
حرف زباں پر کب آتا ہے
دیکھنے پر اُس آئنہ رُو کے
پھولوں کا بھی رنگ اُڑا ہے
پھل اُترا جس ٹہنی پر بھی
پتھر اُس پر آن پڑا ہے
کب اوراق پُرانے پلٹے
وُہ کہ مجھے جو بھول چکا ہے
اپنی اپنی قبر ہے سب کی
کون کسی کے ساتھ چلا ہے
اَب تو اُس تک جانے والا
گستاخی کا ہی رستہ ہے
اُونٹ چلے ڈھلوان پہ جیسے
ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے
لُٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
کس نے آتا دیکھ کے مجھ کو
بارش میں در بھینچ لیا ہے
اُس سے حرفِ محبت کہنے
ہم نے کیا کیا کچھ لکھا ہے
دامن سے اُس شوخ نے مجھ کو
گرد سمجھ کر جھاڑ دیا ہے
فرق ہے کیوں انسانوں میں جب
سانس کا رشتہ اِک جیسا ہے
فرصت ہی کب پاس کسی کے
کون رُلانے بھی آتا ہے
یادوں کے اک ایک ورق پر
وُہ کلیوں سا کھِل اُٹھتا ہے
شیر بھی صید ہُوا تو آخر
دیواروں پر آ لٹکا ہے
نُچنے سے اِک برگ کے دیکھو
پیڑ ابھی تک کانپ رہا ہے
ایک ذرا سی چنگاری نے
سارا جنگل پھونک دیا ہے
لفظ سے پاگل سا برتاؤ
ساگر ناؤ سے کرتا ہے
بہلا ہے دل درد سے جیسے
بچہ کانچ سے کھیل رہا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
خدشوں میں پلنے والوں نے
سوچا ہے جو، وُہی دیکھا ہے
اپنے اپنے انت کو پانے
جس کو دیکھو دوڑ رہا ہے
زور آور سبزے نے دیکھو
بادل سے حق مانگ لیا ہے
کس رُت کے چھننے سے جانے
صحنِ گلستاں دشت ہوا ہے
ہونٹ گواہی دیں نہ کچھ اُس کی
دل میں جتنا زہر بھرا ہے
لفظ کے تیشے سے ابھرے جو
زخم وہی گہرا ہوتا ہے
آنکھ ٹھہرتی ہے جس پر بھی
منظر وُہ چھالوں جیسا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کّوا چڑیا پر جھپٹا ہے
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اُتنا اُس کے ساتھ خُدا ہے
اونچی کر دے لو زخموں کی
پرسش وُہ بے رحم چِتا ہے
ساکت کر دے جو قدموں کو
جیون وُہ آسیب ہُوا ہے
دشت تھا اُس کا ہجر پہ ہم نے
یہ صحرا بھی پاٹ لیا ہے
مجھ سے اُس کا ذکر نہ چھیڑو
وہ جیسا بھی ہے اچّھا ہے
ساتھ ہمارے ہے وہ جب سے
اور بھی اُس کا رنگ کھُلا ہے
شاہی بھی قربان ہو اُس پر
ماجدؔ کو جو فقر ملا ہے
ماجد صدیقی

غارت گر ہی شاید سب سے اچّھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
جیسا بھی چاہے حصہ لے لیتا ہے
غارت گر ہی شاید سب سے اچّھا ہے
دُھوپ میں کون، کسی کو لے کر ساتھ چلے
چھاتا جس کے ہاتھ ہے سایہ اُس کا ہے
ہاتھ میں لانے، پھر اپنی ہریالی کو
پتّا پیڑ سے، بہتی نہر میں اُترا ہے
شہر میں اُڑتی گرد سے ہو کر آنے پر
چہرہ تو کیا دل بھی مَیلا لگتا ہے
اوٹ میں شب کی ماجدؔ، کچھ کچھ اور لگے
چور بھی ظاہر میں تو شخص ہمیں سا ہے
ماجد صدیقی

دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
کس نے یاد کیا ہے اتنی دیر گئے
دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے
کس نے کس کی پھر دیوار پھلانگی ہے
کس کا چین لٹا ہے اِتنی دیر گئے
کس کی آنکھ سے آس کا تارا ٹوٹا ہے
کس پر کون کھُلا ہے اِتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے اِتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں گھلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے اِتنی دیر گئے
سو گئے سارے بچّے بھی اور جگنو بھی
پھر کیوں شور بپا ہے اِتنی دیر گئے
دیکھ کے ماجدؔ چندا نے بیدار کسے
آنگن میں جھانکا ہے اِتنی دیر گئے
ماجد صدیقی

اَب اپنے آپ کو یوں عُمر بھر سزا دوں گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
یہ ٹھان لی ہے کہ دل سے تجھے بھُلا دوں گا
اَب اپنے آپ کو یوں عُمر بھر سزا دوں گا
ہُوا یہ سایۂ ابلق بھی اَب جو نذرِ خزاں
تو راہ چلتے مسافر کو اور کیا دوں گا
سموم عام کروں گا اِسی کے ذرّوں سے
فضائے دہر کو اَب پیرہن نیا دوں گا
وہ کیا ادا ہے مجھے جس کی بھینٹ چڑھنا ہے
یہ فیصلہ بھی کسی روز اَب سُنا دوں گا
سزا سُناؤ تو اِس جُرم زیست کی مُجھ کو
صلیبِ درد کی بُنیاد تک ہلا دوں گا
ہر ایک شخص کا حق کچھ نہ کچھ ہے مجھ پہ ضرور
میں اپنے قتل کا کس کس کو خوں بہا دوں گا
جو سانس ہے تو یہی آس ہے کہ اب ماجدؔ
شبِ سیاہ کو بھی رُوپ چاند سا دوں گا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑