تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سان

اوہ ائی رب اکھواوے جنہوں، جچدی اے ایہہ شان

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 18
بندیا بندہ بن کے رہئو، تے نہ کر ایڈے مان
اوہ ائی رب اکھواوے جنہوں، جچدی اے ایہہ شان
ہنجواں راہیں میں تے اُترن، کیہ کیہ نِگھے بھیت
جگ توں وکھرا ہوندا جاوے، میرا دِین ایمان
میں اُتّے تے اوہدیاں نظراں، ساول بن بن لہن
تریل پوے تے پتھراں نوں وی، ہو جاندا عرفان
ویتنام، کمبوڈیا، سِینا، کوریا تے کشمیر
بندیاں ہتھ بندے دا لہو، جِنج لوہا چڑھیا سان
لفظاں تھانویں پتھر کاہنوں ماجدُ، رولے اج
ریشم تے پٹ اُندی ہوئی، ایہہ تیری نرم زبان
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کھٹکا ہے یہ، کسی بھی پھسلتی چٹان پر
ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پر
جیسے ہرن کی ناف ہتھیلی پہ آ گئی
کیا نام تھا، سجا تھا کبھی، جو زبان پر
چاہے جو شکل بھی وہ، بناتا ہے اِن دنوں
لوہا تپا کے اور اُسے لا کے سان پر
اُس پر گمانِ مکر ہے اب یہ بھی ہو چلا
تھگلی نہ ٹانک دے وہ کہیں آسمان پر
یک بارگی بدن جو پروتا چلا گیا
ایسا بھی ایک تیر چڑھا تھا کمان پر
تاریخ میں نہ تھی وہی تحریر ، لازوال
جو خون رہ گیا تھا عَلَم پر، نشان پر
ماجدؔ ہلے شجر تو یقیں میں بدل گیا
جو وسوسہ تھا سیلِ رواں کی اٹھان پر
ماجد صدیقی

عذاب کیا یہ مسلسل ہماری جان پہ ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 122
لبوں پہ گرد ہے اِک زنگ سا زبان پہ ہے
عذاب کیا یہ مسلسل ہماری جان پہ ہے
تمہاری ہاں میں ملائیں گے ہاں نہ کب تک ہم
کچھ اور کوٹئے لوہا ابھی تو سان پہ ہے
نہ اُس شجر کی خبر اِس شجر تلک پہنچے
اِسی خیال سے قدغن ہرِاک اڑان پہ ہے
اُسے یہ ناز ہمارے ہی عجز نے بخشا
بزعمِ خویش قدم جس کا آسمان پہ ہے
پتہ ہے اُس کو نشانوں کے زاویوں کا بھی
وہ جس کی ساری توجہ ابھی کمان پہ ہے
وہ شب کی اوٹ سے کچھ اور ہی نکالے گا
کہ جس کا دھیان دروں پر لگے نشان پہ ہے
اُتر کے دشت میں ماجدؔ رہے نہ یوں شاید
گمان اپنے تحفّظ کا جو مچان پہ ہے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑