تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

زاد

اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
اپنی بانہوں میں کبھی جو وہ ستم ایجاد لُوں
اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں
کوئی عارض ہو درخشاں، کوئی قامت دل نشیں
اپنے آئندہ سفر کے واسطے میں زاد لُوں
کاش قُرعے ہوں سپھل میرے بہ حقِ خستگاں
اپنے داموں میں بھی نِت اِک شہرِ نَوآباد لُوں
کیسے پُوری کر دکھاؤں سب مرادیں میں تری
میں بھلا تیری خبر کیا اے دلِ ناشاد لُوں
کون زیرِ چرخ پہنچے گا رسائی کو مری
اپنے ذمّے میں کہ یہ اِک خلق کی فریاد لُوں
اپنے ہم عصروں میں منصف ہے تو اِک یاور ہی ہے
میروغالب ہوں تو اُن سے اپنے فن کی دادلُوں
ناپ کو ماجد فراہم ہوں اگر اُونچائیاں
میں سخن کے واسطے اپنے قدِ شمشاد لُوں
ماجد صدیقی

واماندگی ہے ورثۂ اجداد کیا کہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
اِک اِک قدم پہ ہے نئی ایجاد کیا کہیں
واماندگی ہے ورثۂ اجداد کیا کہیں
صحرا میں جیسے کوئی بگولہ ہو بے مُہار
ہم آپ ہیں کُچھ ایسے ہی آزاد کیا کہیں
ہم مطمئن ہیں جس طرح اینٹوں کو جوڑ کر
یوں بھی کبھی ہوئے نگر آباد کیا کہیں
ہم نے تو کوہِ جُہل و کسالت کیا ہے زیر
کہتے ہیں لوگ کیوں ہمیں فرہاد کیا کہیں
باٹوں سے تولتے ہیں جو پھولوں کی پتّیاں
حق میں ہمارے فن کے وہ نقّاد کیا کہیں
ہم جنس اوجِ تخت سے لگتے ہیں کیوں حقیر
ماجِد یہ ہم کہ جو نہیں شہ زاد کیا کہیں
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑