ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
اِٹھلانے کچھ کر دکھلانے سے معذور ہی رکھنا ہے
زورآور نے مدِ مقابل کو محصور ہی رکھنا ہے
ہم ایسوں کو جو بے سمت بھی ہیں اور غافل و کاہل بھی
جبر نے اپنا ہاتھ دکھانا ہے مجبور ہی رکھنا ہے
جو بھی ہے صاحبِ قامت اُسکو شاہ کے مصاحب بَونوں نے
دھج اپنی قائم رکھنے کو شاہ سے دُور ہی رکھنا ہے
ظلمتِ شب میں کرمکِ شب بھی جس کے لبوں پر چمکا ہے
دن چڑھنے پر نام اُس نے اپنا منصور ہی رکھنا ہے
اِس مقصد کو سر نہ کہیں وہ اُٹھائیں تازہ بدن ہو کر
مزدوروں کو آجر نے ہر حال میں چُور ہی رکھنا ہے
ماجِد ہم نے یہی دیکھا ہے مشفق ماؤں تک نے بھی
جو بھی کوئی سوتیلا ہو اُس کو رنجور ہی رکھنا ہے
ماجد صدیقی