تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

رات

’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو،

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 154
گل پھینکتے ہو، وار بھی اِک سات کرو ہو
’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو،
مسکان کے کچھ بعد ہی یہ تیوری کیوں ہے
تم اچّھے بھلے روز کو کیوں رات کرو ہو
کب جُوئے مئے خاص کو تم کرنے لگے عام
کب آنکھ کو تم وقفِ خرابات کرو ہو
تم بات کرو اُن سے جو برّاق تمہیں دیں
ہم خاک نشینوں سے کہاں بات کرو ہو
تم یوں تو کِھلاتے ہی نہیں غنچۂ لب کو
تم بات بھی کرتے ہو تو خیرات کرو ہو
کچھ کوڑیاں کرتے ہو جو تنخواہ میں ایزاد
حاتم کی سخاوت کو بھی تم مات کرو ہو
نسلوں کا یہ رونا ہے تمہارا نہیں ماجد!
تکرار سے کیوں شکوۂ حالات کرو ہو
نذرِڈاکٹر کلیم عاجز
ماجد صدیقی

غرورِ فرقِ شجر کھا چکے ہیں مات بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
بہ جبرِ باد اُچھالے گئے ہیں پات بہت
غرورِ فرقِ شجر کھا چکے ہیں مات بہت
یہ ہم کہ بندگی عنواں ہے جن کے ماتھوں کا
خدا گری پہ ہیں اپنے تحفظّات بہت
مقدّمہ جو لڑا بھی تو اہلِ دل نے لڑا
گئے ہیں جِیت بہم تھے جنہیں نُکات بہت
رسا ہوا ہے کہیں بھی نہ کوئی آوازہ
اُٹھے ہیں جو بھی کٹے ہیں وہ سارے ہات بہت
بڑا ہی ارزل و اسفل ہے یا ہے تُخمِ حرام
بَکے ہے صبح و مسا جو مغلظّات بہت
سیاہ دَھن سے سیاہ کاریوں تلک ماجد
یہاں ہمارے سَروں کی ردا ہے رات بہت
ماجد صدیقی

اَب نام ہمارے کوئی سوغات نہ آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
خوشبُو بھی صبا اُس کی لئے سات نہ آئے
اَب نام ہمارے کوئی سوغات نہ آئے
جو لہر بھی اُٹھتی ہو بھلے دل میں اُٹھے وُہ
ہونٹوں پہ مگر تُندیٔ جذبات نہ آئے
اک بار جھنجھوڑا ہو جِسے ابر و ہوا نے
اُس پیڑ پہ پھر لوٹ کے پھل پات نہ آئے
دیکھی تھی نشیمن کے اُجڑنے سے جو پہلے
ایسی بھی گلستاں میں کوئی رات نہ آئے
جو یاد بھی آئے، تو لرزتا ہے بدن تک
آنکھوں میں کہیں پھر وُہی برسات نہ آئے
ہر کوہ یہ کہتا ہے کہ آگے کبھی اُس کے
تیشے میں ہے جو لطفِ کرامات نہ آئے
کرنے کو شفاعت بھی یہ اچّھا ہے کہ ماجدؔ
نیّت ہے بُری جس کی وُہ بد ذات نہ آئے
ماجد صدیقی

اُس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
خلقتِ شہر سے کیوں ایسی بُری بات کہے
اُس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے
جاننا چاہو جو گلشن کی حقیقت تو سُنو
بات وُہ شاخ سے نُچ کر جو جھڑا پات کہے
اِس سے بڑھ کر بھی ہو کیا غیر کی بالادستی
جیت جانے کو بھی جب اپنی نظرمات کہے
کون روکے گا بھلا وقتِ مقرّر پہ اُسے
بات ہر صبح یہی جاتی ہوئی رات کہے
بس میں انساں کے کہاں آئے ترفّع اس سا
وقت ہر آن جو اپنی سی مناجات کہے
منحرف حرف سے کاغذ بھی لگے جب ماجدؔ
کس سے جا کر یہ قلم شّدتِ صدمات کہے
ماجد صدیقی

کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
تھی غنچۂ دل میں جو وُہی بات رُکی ہے
کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے
کب ریت کی دیوار سے سیلاب ہے ٹھٹکا
فریاد سے کب یورشِ آفات رُکی ہے
ژالہ سا ہر اِک برگ لپکتا ہے زمیں کو
کیسی یہ بھلا باغ میں برسات رُکی ہے
کچھ اور بھی مچلے گی ابھی بُعدِ سحر سے
پلکوں پہ ستاروں کی جو بارات رُکی ہے
عجلت میں رواں، مالِ غنیمت کو سنبھالے
کب موجِ ہوا پاس لئے پات، رُکی ہے
بوندوں نے قفس میں بھی یہی دی ہے تسلی
صیّاد سے کب بارشِ نغمات رُکی ہے
ماجدؔ یہ کرم ہم پہ کہاں موسمِ گل کا
کب ہاتھ میں لینے کو صبا ہات رُکی ہے
ماجد صدیقی

خیر سگالی کے اب وُہ جذبات کہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
پت جھڑ کی رُت میں پیڑوں پر پات کہاں
خیر سگالی کے اب وُہ جذبات کہاں
لفظوں میں جھنکار کہاں اَب جذبوں کی
ہونٹوں پر جھرنوں جیسے نغمات کہاں
جھُول رہے ہیں جسکے تُند بہاؤ پر
دیکھیں لے کر جاتی ہے یہ رات کہاں
اپنی دُھن میں اُڑنے والا کیا جانے
کون کھڑا ہے اُس کی لگائے گھات کہاں
گُم سُم ہو جائیں مہمان کی دستک پر
گھر والوں کو لے آئے حالات کہاں
اُٹھے ہیں جو فرعونی دستاروں پر
کٹنے سے بچ سکتے ہیں وُہ ہات کہاں
ماجدؔ بنیاؤں سا حصّہ، جیون سے
لینے سے باز آتے ہیں صدمات کہاں
ماجد صدیقی

اَب تو چاروں اور ہمیں وہ رات دکھائی دیتی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
پل پل بُجھتی جس میں اپنی ذات دکھائی دیتی ہے
اَب تو چاروں اور ہمیں وہ رات دکھائی دیتی ہے
صحن چمن میں پہلا ہی سا رقص و سرُود ہوا کا ہے
ہر سُو گرتے پتّوں کی برسات دکھائی دیتی ہے
جانے کس کا خوف ہے جو کر دیتا ہے محتاط ہمیں
ہونٹوں پر اٹکی اٹکی ہر بات دکھائی دیتی ہے
شاخِ طرب سے جھڑنے والی، گردِ الم میں لپٹی سی
صُورت صُورت پیڑ سے بچھڑا پات دکھائی دیتی ہے
سودا ہے درپیش ہمیں جو آن کا ہے یا جان کا ہے
صُورت جینے مرنے کی اک سات دکھائی دیتی ہے
موسمِ دشت میں نم ہو ماجدؔ کب تک آبلہ پائی سے
اَب تو ہمیں اِس رن میں بھی کُچھ مات دکھائی دیتی ہے
ماجد صدیقی

رکھ دی گئی بگاڑ کے ملت کی نفسیات

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
تا عمر اقتدار کو دیتے ہوئے ثبات
رکھ دی گئی بگاڑ کے ملت کی نفسیات
پیڑوں پہ پنچھیوں میں عجب سنسنی سی ہے
گیدڑ ہرن کی جب سے لگائے ہوئے ہیں گھات
مخلوق ہو کوئی بھی مگر دیکھنا یہ ہے
کرتا ہے کیا سلوک، یہاں کون، کس کے سات
اشکوں سے کب دُھلی ہے سیاہی نصیب کی
تسخیر جگنوؤں سے ہوئی کب سیاہ رات
ہم نے یہ بات کرمکِ شب تاب سے سنی
ظلمت نہ دے سکی کسی اِک بھی کرن کو مات
ماجدؔ کسی کے ہاتھ نہ آئے نہ آ سکے
کٹ کر پتنگ ڈور سے، منہ سے نکل کے بات
ماجد صدیقی

سامنا اِک عمر سے ہے اُس اندھیری رات سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
جس کا ہر منظر مرتّب ہے نئی آفات سے
سامنا اِک عمر سے ہے اُس اندھیری رات سے
مطمئن کیا ہو بھلا بچّوں کی نادانی سے وہ
ماں جسے فرصت نہیں اک آن بھی خدشات سے
کر لئے بے ذائقہ وہ دن بھی جو آئے نہیں
درس کیا لیتے بھلا ہم اور جھڑتے پات سے
ابنِ آدم اب کے پھر فرعون ٹھہرا ہے جسے
مل گیا زعمِ خدائی آہنی آلات سے
جس کے ہم داعی ہیں ماجد ضَو نہیں، ظلمت ہے وہ
پھوٹتی ہے جو ہمارے جسم کے ذرّات سے
ماجد صدیقی

آندھیاں اُٹھا لائیں، پات میرے آنگن میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
ہو چلی ہے اَن دیکھی بات، میرے آنگن میں
آندھیاں اُٹھا لائیں، پات میرے آنگن میں
اوٹ سے منڈیروں کی، ڈور چھوڑ کر مجھ کو
دے گیا ہے پھر کوئی مات، میرے آنگن میں
نام پر مرے کس نے، کاٹ کاٹ کر چِّلے
دفن کی ہے آسیبی دھات، میرے آنگن میں
بس اِسی بنا پر مَیں، آسماں سے رُوٹھا ہوں
چاند کیوں نہیں اُترا رات، میرے آنگن میں
جب سے کُھل چلی ماجدؔ، بے بضاعتی دل کی
کرب نے لگائی ہے گھات، میرے آنگن میں
ماجد صدیقی

فوّاروں سی پھُوٹ رہی ہے، آنگن آنگن رات

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
کیا کر لے گی اِن اشکوں، اِن تاروں کی بارات
فوّاروں سی پھُوٹ رہی ہے، آنگن آنگن رات
اپنی خشک تنی کے نوحے، کر کے لبوں سے محو
پانی ہی کے گُن گاتے ہیں، پیڑ سے جھڑتے پات
ہم ایسے پچھڑے لوگوں کے، دل کا حال نہ پوچھ
جنگلی گھاس کی صورت چمٹیں، قدم قدم صدمات
جیون ہے سائے کی مسافت، پل میں اور سے اور
شکلیں بدلے اور تیاگے اپنوں تک کا سات
کس نے چُلوّ پانی سے مُجھ پیڑ کی چاہی خیر
کس نے قبر پہ حاتم کی ماری ہے، ماجدؔ لات
ماجد صدیقی

شاعری ماجد! عبارت ہو اگر صدمات سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
کم نہیں وجدان پر اُتری ہوئی آیات سے
شاعری ماجد! عبارت ہو اگر صدمات سے
ہر تمنّا ہے اِسی کی دھند میں لپٹی ہوئی
مدّتوں سے ہے یہی رشتہ اندھیری رات سے
کر لئے بے ذائقہ وہ دن بھی جو آئے نہیں
درس کیا لیتے بھلا ہم اور جھڑتے پات سے
بن گئیں پیڑوں کی شاخیں بھی قفس کی تیلیاں
سامنا ہے باغ میں ایسے ہی کچھ حالات سے
ابنِ آدم اب کے پھر فرعون ٹھہرا ہے جسے
مل گیا زعمِ خدائی آہنی آلات سے
ماجد صدیقی

آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
تُجھ سے کہنے کی بس اَب یہی بات ہے
آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے
اپنی خواہش، کہ گُل پیرہن ہو چلیں
اور فضائے چمن، وقفِ حالات ہے
چار سُو ایک ہی منظرِ بے سکوں
چار سُو خشک پتّوں کی برسات ہے
اَب تو ماجدؔ خزاں کے نہ منکر رہو
شاخ پر اَب تو کوئی کوئی پات ہے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑