تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

دہراتا

سِفلوں سے پالا پڑتا ہے راز یہ تب کُھل پاتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
کُتا آنکھیں کب دکھلاتا ہے کب دُم لہراتا ہے
سِفلوں سے پالا پڑتا ہے راز یہ تب کُھل پاتا ہے
خلق سے بھی کھنچتا ہے آئینے سے بھی کتراتا ہے
جس کے دل میں چور ہو خود سے بھی کم آنکھ ملاتا ہے
جویائے تعبیر رہے وہ خواب میں قامتِ بالا کی
بَونے کی یہ خُو ہے سوتے میں بھی وہ اِٹھلاتا ہے
اِس سے ہٹ کر کم کم ہو، ہوتا ہے اکثر ایسا ہی
باپ نے جو جَھک ماری ہو بیٹا بھی اسے دُہراتا ہے
جس کوتاہ نظر کو بھی احساس ہو کمتر ہونے کا
برتر پر چھا جانے کو وہ اور ہی طیش دِکھاتا ہے
خاک کو دریا دل ہو کر جب سرمۂ چشم بنایا تھا
ماجدؔ جانے وہ لمحہ کیوں رہ رہ کر یاد آتا ہے
ماجد صدیقی

جابر جابر اپنا عِجز دکھاتا رہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
نیکوں کی فہرست میں نام لکھاتا رہ
جابر جابر اپنا عِجز دکھاتا رہ
ہے تیرا مقدور، سرِ دربار یہی
چانٹے کھا اور گالوں کو سہلاتا رہ
پھیر سیاہی محرومی کے اُکروں پر
درس یہی، ہر آتی پل دُہراتا رہ
بندہ ہے تو اور بھلا کیا کام ترا
ہاتھ خداؤں کے آگے پھیلاتا رہ
ختم نہ ہونے دے اپنی یہ نادانی
بھینس کے آگے ماجدؔ بین بجاتا رہ
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑