تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

دھن

زیبِ تن جوڑا کفن ہونے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 153
میں وطن میں بے وطن ہونے لگا
زیبِ تن جوڑا کفن ہونے لگا
نام پر جس کے خزانے بھر چلے
خونِ انسانی بھی دَھن ہونے لگا
دورِ نَو میں خوب کیا ناخوب کیا
اسلحے کی کاٹ، فن ہونے لگا
جبر سے اُگ آئِیں خیمہ بستیاں
شہر سا آباد بن ہونے لگا
جانے کیوں اپنوں کے ہاتھوں حشرزا
اپنے حصے کا گگن ہونے لگا
تُندِیاں پا کر ہوائے دہر میں
تلخ تر ماجد سخن ہونے لگا
شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے حوالے سے
ماجد صدیقی

وقت ہی سب کا محرم وقت ہی دشمن بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
جس سے بن بھی آئے، رہے ہے ان بن بھی
وقت ہی سب کا محرم وقت ہی دشمن بھی
ناداری دکھلائے سگی ماؤں میں بھی
اپنائیت بھی اور سوتیلا پن بھی
اپنے عزیز و اقارب راضی رکھنے کو
تن من بھی لگتا ہے، لگتا ہے دھن بھی
جیسے ہو بھونچال کا شور فضاؤں میں
گُونجے ہے یوں گاہے دل کی دھڑکن بھی
سب سے بڑا ہے داعیٔ امن بھی انساں ہی
اور انسانوں میں پڑتے ہیں رَن بھی
ناآگاہ ترے اخلاص سے اہلِ جہاں
کُھلا نہیں ماجِد اِن سب پہ ترا فن بھی
ماجد صدیقی

اُتری ہے چاند تک میں ترے پیرہن کی باس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
آ دیکھ گُل بہ گُل ہے ترے تن بدن کی باس
اُتری ہے چاند تک میں ترے پیرہن کی باس
گل جس طرح رہے ہوں کبھی ہم نشینِخاک
مجھ میں بھی اِس طرح کی ہے تجھ سے ملن کی باس
ہاں ہاں مجھے جلائے جو تیرے فراق میں
ہر رگ میں جاگزیں ہے اُسی اِک اگن کی باس
یوں اب کے اشک یاد میں تیری بہا کیے
بارش برس کے عام کرے جیسے بن کی باس
کھٹکا یہی تو تجھ سے مجھے ابتدا سے تھا
جانا ں!تجھے بھی کھینچ نہ لے جائے دَھن کی باس
ماجد صدیقی

تیر پر اُس کے مرا جب تن لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
ذات میں اپنی یہ گُل، گلشن لگا
تیر پر اُس کے مرا جب تن لگا
اے نظر چھُپنے سے اُس مہتاب کے
کس قدر سُونا ترا آنگن لگا
پر تو کاٹے ہیں قفس میں جھونک کر
اَب صدا پر بھی مری قدغن لگا
وُہ بھی انساں تھا جواں بیٹی جسے
حِرص کے آنگن میں بکھرا دھن لگا
کیا سراپا تھا وہ جس کو دیکھ کر
جی سے جانا بھی ہمیں احسن لگا
دیکھ لے ماجدؔ کرشمے عجز کے
ابر بھی چڑیوں کو ہے ناگن لگا
ماجد صدیقی

چِڑا رہے ہیں مرا منہ، مرے سخن کے گلاب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
شرف مآب ہوئے سے جب سے مکر و فن کے گلاب
چِڑا رہے ہیں مرا منہ، مرے سخن کے گلاب
بناتِ شہر کی پژمردگی وہ کیا جانے
بہم ہر آن جسے ہوں، بدن بدن کے گلاب
ملے نہ جس کا کہیں بھی ضمیر سے رشتہ
گراں بہا ہیں اُسی فکرِ پر فتن کے گلاب
سخن میں جس کے بھی اُمڈی ریا کی صنّاعی
ہر ایک سمت سے برسے اُسی پہ دَھن کے گلاب
یہاں جو قصر نشیں ہے، یہ جان لے کہ اُسے
نظر نہ آئیں گے ماجد، تجھ ایسے بن کے گلاب
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑