تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

دشوار

غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
گھر گھر رسماً زر کے ہیں انبار یہاں
غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں
رکھیں گرم فقط جیبیں کارندوں کی
ٹیکس بچائیں کیا کیا ٹیکس گزار یہاں
نرخ بڑھائیں وزن کریں کم چیزوں کے
ہوتا ہے یوں دُگنا کاروبار یہاں
بندشِ آب و ضیا پر ہر سو ہنگامے
سانس تلک لینا بھی ہوا دشوار یہاں
نسل بڑھائیں پودا اک بھی لگا نہ سکیں
بس اِک حد تک ہیں سارے ہُشیار یہاں
وہ جو ملا تھا وہ تو گنوا بیٹھے ہیں ہم
اُس سا ملے اب، کب دُرّ شہوار یہاں
ماجد جو بھی کہے کچھ کہہ دے سوتے میں
تجھ سی بہم کس کو چشمِ بیدار یہاں
ماجد صدیقی

دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جس کسی نے بھی دیا دیدۂ بیدار مجھے
دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے
ہاں یہی حکم عدالت سے مجھے ملنا تھا
ابتدا ہی سے رہا جرم کا اقرار مجھے
رُت بدلتی تو مرا دل بھی گواہی دیتا
کچھ قرائن سے بھی آتے نظر آثار مجھے
اپنی آہٹ کے سوا کوئی پس و پیش نہیں
کھینچ لایا ہے یہ کس اَوج پہ پندار مجھے
سجدہ ریزی بھی کروں، سربفلک بھی ٹھہروں
ایک دم کیسے سکھاؤگے یہ اطوار مجھے
ہائے وہ لوگ کہ صدیوں کے جو پیراک ہوئے
ایک لمحے سے گزرنا ہوا دُشوار مجھے
آنکھ نمناک ہے پر لب ہیں شگفتہ ماجدؔ
اور کیا چاہئے پیرایۂ اظہار مجھے
ماجد صدیقی

شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 134
نطق سلامت ہے تو مہلک جرثوموں کے وار بہت
شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت
اُس چنچل کے ہاتھوں جن پر رہ رہ کر تھی اوس پڑی
جانے پھر کیوں رہنے لگے ہیں وہ جذبے بیدار بہت
نازک وقت پہنچنے پر قائم نہ کسی کا بھی تھا بھرم
جتنی تمنّائیں تھیں دل میں نکلیں وہ نادار بہت
دونوں جرم کے منوانے پر اور نہ ماننے پر تھے تُلے
ہم کہ ہمیں اصرار بہت تھاوہ کہُانہیں انکار بہت
اور تأثر دے کر جس نے میرا خون غلاف کیا
وقت کے ہاتھوں دھل کر چمکی آخر وہ تلوار بہت
وہ قاصد دربانِ درِ محبوب سا جو محتاط رہے
دیدنی ہیں اُس قاصد جیسے نت چھپتے اخبار بہت
ایک ہی بات ہے پنکھ کٹیں یا چونچ پہ مُہر لگے ماجدؔ
مہجوروں کی خاطر ہیں اِس گلشن میں آزار بہت
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑