تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

دانے

بکھریں سب تسبیح کے دانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 227
وقت نہ پھلنے دے یارانے
بکھریں سب تسبیح کے دانے
تعبیریں سب پا لیتے ہیں
خدشے، خواہشیں، خواب سہانے
کم اندیش جسے سچ سمجھیں
دل کیوں ایسی بات نہ مانے
سچّا ایک ہی رَٹ پر قائم
بدنیّت کے لاکھ بہانے
اشکوں میں جو راز چھپے ہیں
کب لفظوں میں لگے سمانے
ماجد اک اک کرکے بچھڑے
جتنے بھی تھے یار پُرانے
ماجد صدیقی

تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
میرے انگناں پھول کھلا دے خوشبودار، سہانے ہُو
تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو
خلقِ خدا کے حق میں میرے خواب وُہ سچّے ہو جائیں
میں جن خوابوں کے بُنتا رہتا ہوں تانے بانے ہُو
حملہ آوروں، قْزّاقوں پر، گُستاخوں، منہ زوروں پر
میں جو تیر چلاؤں کیونکر ملیں نہ اُنہیں نشانے ہُو
میں اپنی بد بختی پر کاہے کو سبب ٹھہراؤں انہیں
نام پہ اچھّوں اور سچّوں کے بنتے ہیں جو فسانے ہُو
جس بھی شخص نے اپنی ریاضت سے قد کاٹھ نکالا ہے
اُس کو بَونے زچ کردیں گے، دِل یہ بات نہ مانے ہُو
کل کچھ بچّے باہم حسرتیں بانٹ رہے تھے یہ کہہ کر
عیدکا چندا ماموں آیا۔۔۔ عیدیاں اُنہیں دلانے ہُو
ننھی چیونٹیوں جیسا عزم لیے دل میں جب نکلا تو
ماجد کو بھی ملے ہیں سخن کی شیرینی کے خزانے ہُو
ماجد صدیقی

ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
ایک وُہ شخص ہی احوال نہ جانے میرے
ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے
مَیں نہ خوشبُو نہ کرن، رنگِ سحر ہوں نہ صبا
کون آتا ہے بھلا ناز اُٹھانے میرے
ہاں وُہی دن کہ مرے حکم میں تھا تیرا بدن
جانے کب لوٹ کے آئیں وُہ زمانے میرے
چشم و رُخسار، وہ چہرہ، وہ نظرتاب اُبھار
ہیں وُہی شوق کی تسبیح کے دانے میرے
ضرب کس ہاتھ کی جانے یہ پڑی ہے اِن پر
چُور ہیں لُطف کے سب آئنہ خانے میرے
اُس نے تو آگ دکھا کر مجھے پُوچھا بھی نہ پھر
آیا ہوتا وہ الاؤ ہی بجھانے میرے
جب سے کھویا ہے وُہ مہتاب سا پیکر ماجدؔ
سخت سُونے میں نگاہوں کے ٹھکانے میرے
ماجد صدیقی

کوئی نمو کا بھی رُخ دیجیے زمانے کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
کشید خاک سے آتش تو کی جلانے کو
کوئی نمو کا بھی رُخ دیجیے زمانے کو
لگے بھی ہاتھ تو کس کے ستم کشانِ جہاں
سجا رہا ہے جو کولہو میں دانے دانے کو
لہو میں لتھڑے ہوئے پاؤں لے کے دھرتی سے
چلا ہے چاند پہ انساں قدم جمانے کو
کسی بھی عہد میں وحشت کا تھا نہ یہ انداز
ہر ایک ہاتھ میں کب جال تھے بچھانے کو
ہر ایک شخص سے ہر ایک شخص بیگانہ
یہ کیا ہوا ہے یکایک مرے زمانے کو
وُہ سُن کے زخم بھی ماجدؔ ترے کُریدیں گے
جنہیں چلا ہے حکایاتِ غم سُنانے کو
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑