ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 210
جینے کے دن بھی جس نے دئے ہیں ادھار کے
ہم بندگان ہیں اُسی پروردگار کے
یہ بھی نجانے کیوں مرے دامن میں رہ گئیں
کچھ پتّیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
گنوائیں کیا سے کیا جو مبلّغ ہیں خَیر کے
ہائے وہ سلسلے کہ جو ہیں گِیر و دار کے
اُس نے تو کھال تک ہے ہماری اُتار لی
زیرِ نگیں ہم آپ ہیں کس تاجدار کے
ہاں آکے بیٹھتے ہیں کبوتر جو بام پر
ہاں اقربا ہیں یہ بھی مرے دُور پار کے
تھہرائیں ہم رقیب کسے اور کسے نہیں
ہم یار بھی ہوئے ہیں تو جہاں بھر کے یار کے
کھویا ہے کیا سے کیا ابھی کھونا ہے کیا سے کیا
ماجد یہ کیسے دن ہیں گنت کے شمار کے
نذرفیض
ماجد صدیقی