تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

دار

ہم بندگان ہیں اُسی پروردگار کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 210
جینے کے دن بھی جس نے دئے ہیں ادھار کے
ہم بندگان ہیں اُسی پروردگار کے
یہ بھی نجانے کیوں مرے دامن میں رہ گئیں
کچھ پتّیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
گنوائیں کیا سے کیا جو مبلّغ ہیں خَیر کے
ہائے وہ سلسلے کہ جو ہیں گِیر و دار کے
اُس نے تو کھال تک ہے ہماری اُتار لی
زیرِ نگیں ہم آپ ہیں کس تاجدار کے
ہاں آکے بیٹھتے ہیں کبوتر جو بام پر
ہاں اقربا ہیں یہ بھی مرے دُور پار کے
تھہرائیں ہم رقیب کسے اور کسے نہیں
ہم یار بھی ہوئے ہیں تو جہاں بھر کے یار کے
کھویا ہے کیا سے کیا ابھی کھونا ہے کیا سے کیا
ماجد یہ کیسے دن ہیں گنت کے شمار کے
نذرفیض
ماجد صدیقی

مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 158
بہم رہے نہ سدا قُربِ یار کا موسم
مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم
نشہ حیات کا سارا اُسی میں پنہاں تھا
کسی بدن پہ جو تھا اختیار کا موسم
نجانے کیوں ہے یتیموں کے دیدہ و دل سا
جہاں پہ ہم ہیں اُسی اِک دیار کا موسم
ہے قحطِ آب کہیں، اور قحطِ ضَو ہے کہیں
نگر پہ چھایا ہے کیا شہریار کا موسم
جو چاہیے تھا بہ کاوش بھی وہ نہ ہاتھ آیا
محیطِ عمر ہُوا انتظار کا موسم
اُنہیں بھی فیض ہمیں سا ملا ہے دریا سے
اِدھر ہی جیسا ہے دریا کے پار کا موسم
گزرنا جان سے جن جن کو آ گیا ماجد
نصیب اُنہی کے ہُوا اَوجِ دار کا موسم
نذرفیض
ماجد صدیقی

جویا صحافتی ہیں زرِ بے شمار کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 117
آیت بھی چھاپتے ہیں تو ساتھ اشتہار کے
جویا صحافتی ہیں زرِ بے شمار کے
بندوں پہ بندگان کو اپنے خدائی دے
احسان کیا سے کیا نہیں پروردگار کے
ٹھہرائیں ہم رقیب کسے اور کسے نہیں
ہم یار بھی ہوئے تو جہاں بھر کے یار کے
یہ بھی نجانے کیوں مرے دامن میں رہ گئیں
یہ پتّیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
سیراب بھی کرے ہے پہ کاٹے بہت زمیں
فیضان دیکھنا شہ دریا شعار کے
گنوائیں کیا سے کیا جو مبلّغ ہیں خیر کے
ہائے وہ سلسلے کہ جو ہیں گیر و دار کے
اس نے تو کھال تک ہے ہماری اتار لی
زیر نگیں ہم آپ ہیں کس تاجدار کے
ہاں آ کے بیٹھتے ہیں کبوتر جو بام پر
ہاں اقربا ہیں یہ بھی مرے دور پار کے
بدلے میں ان کے کرنا پڑے جانے کیا سے کیا
یہ زندگی کے دن کہ ہیں یکسر ادھار کے
ماجد ترا سخن بھی سکوں رہرووں کو دے
گن تجھ میں بھی تو ہیں شجر سایہ دار کے
ماجد صدیقی

بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
بیاں حکایتِ بُخل بہار کیا کرتے
بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے
اُفق اُفق پہ کیا صَرف لُطفِ بینائی
ہم اِس سے بڑھ کے ترا انتطار کیا کرتے
نفس نفس تھا رسن، دار ایک اِک دھڑکن
زباں سے تذکرۂ طوق و دار کیا کرتے
ہمیں تو لطفِ نظر بھی تِرا بہم نہ ہُوا
فضائے دہر کو ہم سازگار کیا کرتے
اب اِس کے بعد تو تیشہ تھا اور تھا سر اپنا
کرشمہ اور کوئی بہرِ یار کیا کرتے
فراغ ہی نہ مِلا اہلِ مصلحت سے کبھی
جنوں کی راہ بھلا اختیار کیا کرتے
کھنچے تھے خاک نشیں تک بھی ہم سے جب ماجدؔ
ہمارے حق میں بھلا تاجدار کیا کرتے
ماجد صدیقی

بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
اُتر کے اَوج سے پل بھر جو خاکسار ہوئے
بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے
خطا کچھ اِس میں تمہاری بھی تھی کہ غیروں کے
تمام لوگ مقلّد سپند وار ہوئے
جو جھُک گئے تھے سکوں آشنا تو تھے لیکن
گراں بہا تھے وہی سر جو زیبِ دار ہوئے
دُعا کو جن کی اُٹھے ہاتھ شل ہوئے اپنے
ہمارے حق میں وُہی پل نہ سازگار ہوئے
کہاں کا لطف کہاں کی طراوتیں ماجدؔ
کہ اب تو لفظ بھی اپنے ہیں خارزار ہوئے
ماجد صدیقی

ہاں مِلے گر تو یوں وقار مِلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
شیر کی کھال مستعار مِلے
ہاں مِلے گر تو یوں وقار مِلے
تھے وہ درباریوں کے چھوڑے ہوئے
جو پرندے پئے شکار مِلے
ڑُخ بہ رُخ چاہے گردِ جَور سجے
تخت کو اور بھی نکھار ملے
جو بھی ہے دردمندِ خلق اُس کو
اور کیا جُز فرازِ دار مِلے
جو خلافِ فرعون اُٹّھی تھی
لب بہ لب کیوں وہی پُکار مِلے
کاسہ لیسوں میں اک سے اک تازہ
جو ملے وہ وفا شعار مِلے
وہ جو لائے بقائے حفظِ عوام
کون ماجِد کو ایسا یار مِلے
ماجد صدیقی

خلق سے وہ بے زار ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
جتنے بھی اوتار ملے
خلق سے وہ بے زار ملے
جن سے ملنا روگ ہُوا
اُن سے بھی ناچار ملے
سُکھ کے سپنے دیکھے تھے
پر کیا کیا آزار ملے
ناٹک میں چاہت کے بھی
نفرت کے آثار ملے
جھُوٹ بٹھائے مسند پر
سچ کہنے پر دار ملے
سوچیں ٹی وی سیٹ والے
کیونکر وی سی آر ملے
اچّھے ہیں وہ لوگ جنہیں
ماجدؔ جیسے یار ملے
ماجد صدیقی

سچ لٹکتا ہے ہمیشہ دار سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
بچ نہیں سکتا رِیا کے وار سے
سچ لٹکتا ہے ہمیشہ دار سے
دُور کرنے راہ چلتوں کی تھکن
جھانکتی ہے بیل اِک دیوار سے
ڈھل گیا آخر تناؤ شاخ کا
عجز کے سجدوں میں، برگ و بار سے
جس میں ہو تاب و تواں ایقان کی
وُہ بدن کٹتا نہیں تلوار سے
کس نے آنا تھا بھلا لینے ہمیں
سر اٹھاتے بھی تو کیا منجدھار سے
دل مرا چڑیا کے بچّے کی طرح
دم بخود ہے حرص کی یلغار سے
سر جُھکے ماجدؔ دعا کو کس قدر
پوچھ لو یہ بھی کسی اوتار سے
ماجد صدیقی

گرد آئے جہاں غبار آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
اُس چمن پر کہاں نکھار آئے
گرد آئے جہاں غبار آئے
ہم ہیں محصور اُس گلستاں میں
عمر گزری جہاں بہار آئے
کس کو اپنی غرض عزیز نہیں
کس کی باتوں پہ اعتبار آئے
ایسا بگڑا نظام اعضا کا
نت کُمک کو ہمیں بخار آئے
رن میں آئین تھا وفا کا یہی
جو بھی مشکل پڑی گزار آئے
ہم ہیں وہ لوگ جو کہ شانوں پر
سر کے ہمراہ لے کے دار آئے
چھِن گئے جن سے پیرہن ماجدؔ
ایسی شاخوں کو کیا قرار آئے
ماجد صدیقی

ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
ہونٹوں پہ نہ لائیں یہ سخن ’’یار ہے کیسا‘‘
ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا
نیلام تو اُٹھ لے ابھی کھل جائے گا سب کچھ
ہم کون ہیں اور مصر کا بازار ہے کیسا
بھّٹی میں شراروں کی چمن سینچ رہا ہے
اس دور کا انسان بھی بیدار ہے کیسا
انصاف کی میزان کا بَل خود یہ بتائے
عشّاق کا احوال سرِ دار ہے کیسا
ایقان ہی جب اُن پہ تمہارا نہیں ماجدؔ
پھر کرب و الم کا تمہیں اقرار ہے کیسا
ماجد صدیقی

کہ جیسے چاندنی چھاجوں برستی نار کے بعد

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
ملا وُہ خطّۂ جاں دشتِ انتظار کے بعد
کہ جیسے چاندنی چھاجوں برستی نار کے بعد
بہم وُہ لُطف ہُوا قربِ یار سے اَب کے
درونِ ملک سکوں، جیسے انتشار کے بعد
سروں نے کھنچ کے بدن سے کہا، بنامِ وطن
کوئی فراز نہیں ہے فرازِ دار کے بعد
نِکل کے کوچۂ جاناں سے ہم بھی دیکھ آئے
سبک سری جو ملے دورِ اقتدار کے بعد
پچھڑ کے موسمِ گُل سے یہی ہُوا ماجدؔ
کھِلا ہے غنچۂ دل ہر گئی بہار کے بعد
ماجد صدیقی

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے
لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے
لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں
چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے
کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سو
اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے
چوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے
کر چکے ایکا سبھی زر دار، میرے شہر کے
مکر کیا کیا لوریاں ماجد اُنہیں دینے لگا
لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے
ماجد صدیقی

ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
تھا میّسر ہی نہ پیرایۂ اظہار ہمیں
ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں
کن بگولوں کے حصاروں میں کھڑے دیکھتے ہیں
اَب کے پت جھڑ میں سلگتے ہوئے گلزار ہمیں
وقت بدلا ہے تو گوشوں میں چُھپے بیٹھے ہیں
وہ جو کرتے رہے رُسوا سرِ بازار ہمیں
کل تھا کس رنگ میں اور آج سرِ بزمِ وفا
کیا نظر آیا ہے وہ حُسنِ طرح دار ہمیں
کب سے دیتا ہے صدا کوئی پری وش ماجدؔ
عنبر و عود لٹاتے ہوئے اُس پار ہمیں
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑