تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

خیال

محال تر ہے بہ ہر حال، اندمال مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
فساد و جبر کے چانٹوں سے منہ ہے لال مرا
محال تر ہے بہ ہر حال، اندمال مرا
طویل دوڑ کے ہائے یہ آخری پھیرے
صدی صدی کے برابر ہے سال سال مرا
بہم ہُوا نہ جہاں میں کسی بھی قاروں کو
مرا وہ رخت ہے سرمایۂ خیال مرا
یہ زہر بھی ہے تو تریاق مجھ کو لگتا ہے
دوام دے مجھے اندیشۂ زوال مرا
نہ دسترس میں ہو چالاک صَیدِ مضموں تو
نشانہ چُوک بھی جاتا ہے خال خال مرا
وہ نامراد مجھے بامراد کیا کرتا
یقین میں نہیں بدلا یہ احتمال مرا
مرے کلام میں پنہاں ہے جیسے برقِ خیال
جمال ہی میں ہے ماجِد چھپا جلال مرا
ماجد صدیقی

کیا کیا نہ ہمیں خیال آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
محتاج کو جب سے ٹال آئے
کیا کیا نہ ہمیں خیال آئے
کیا یہ بھی اثر ہے بددُعا کا
سُورج کو جو نت زوال آئے
ہے نام کا بھی جو شیرِ بیشہ
گیدڑ کی اُسے نہ چال آئے
ہے جس کے قلم میں عدلِ دوراں
کیونکر نہ اُسے جلال آئے
اُس شخص سے خیر کی طلب کیا
ماجدؔ، جِسے دیکھ بھال آئے
ماجد صدیقی

لمحہ لمحہ ہُوا ہے سال اپنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 117
گفتنی اِس قدر ہے حال اپنا
لمحہ لمحہ ہُوا ہے سال اپنا
تشنہ لب تھے جو کھیت اُن کو بھی
ابر دکھلا گیا جلال اپنا
بیچ کر ہی اٹھے وہ منڈی سے
تھے لگائے ہوئے جو مال اپنا
دیکھتے ہی غرور منصف کا
ہم پہ کُھلنے لگا مآل اپنا
موج یُوں مہرباں ہے ناؤ پر
پھینکنے کو ہو جیسے جال اپنا
ظرف کس کس کا جانچ لے پہلے
کس پہ کھولے کوئی کمال اپنا
رَد کیا ہے ہمیں جب اُس نے ہی
آئے ماجدؔ کہاں خیال اپنا
ماجد صدیقی

کس کا رہنے لگا خیال ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
روز و شب ہے یہ کیا ملال ہمیں
کس کا رہنے لگا خیال ہمیں
پھر کوئی شوخ دل کے درپے ہیں
اے غمِ زندگی سنبھال ہمیں
تیغ دوراں کے وار سہنے کو
ڈھونڈنی ہے کوئی تو ڈھال ہمیں
شہ پیادوں سے جس سے مر جائیں
جانے سُوجھے گی کب وہ چال ہمیں
کسمساتا ہے جسم جس کے لئے
ملنے پایا نہ پھر وہ مال ہمیں
بار شاخوں سے جھاڑ کر ماجدؔ
گرد دیتے ہیں ماہ و سال ہمیں
ماجد صدیقی

وہی سہم سا وہی خوف سا ہے خیال میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
دمِ صید فرق پڑے جو پائے غزال میں
وہی سہم سا وہی خوف سا ہے خیال میں
بڑی بے نیاز رعونتوں کا شکار ہیں
وہ نزاکتیں کہ دبی ہیں اپنے سوال میں
اِسے کس صلابتِ عزم کی میں عطا کہوں
یہ جو تازگی سی ہے آرزو کے جمال میں
وہ تو اُڑ گیا کہ پناہ جس کو بہم ہوئی
پہ لگا جو تیر، لگا درخت کی چھال میں
وہ نشہ کہ بعدِ شکار آئے پلنگ کو
وہی رم امڈنے لگا ہے فکرِ مآل میں
تجھے کیا خیال ہے یہ بھی ماجدِبے خبر!
کہ گھری ہوئی تری جاں بھی ہے کسی جال میں
ماجد صدیقی

میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
افق پہ ذہن کے موزوں ہیں یُوں خیال ترے
میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے
یہ دشتِ دید ترستا ہے کیوں نظر کو تری
بہ قیدِ چشم ہیں کیوں کر ابھی غزال ترے
گمان‘ برگ و ثمر پر ترا ہی صبح و مسا
خطوطِ حُسن ہویدا ہیں‘ ڈال ڈال ترے
ہرا بھرا ترے دم سے ہے گُلستانِ خیال
بہ کشتِ یاد فسانے ہیں چھال چھال ترے
اُسی سے رقص میں ہے شاخِ آرزوئے وصال
ہیں جس ہوا سے شگفتہ یہ ماہ و سال ترے
نکلنے دیں گے کہاں حلقۂ ضیا سے مُجھے
سحر نما یہ کرشمے ترے، خیال ترے
کبھی یہ شعر بھی ماجدؔ کے دیکھنا تو سہی
نقوش اِن میں بھی اُترے ہیں خال خال ترے
ماجد صدیقی

آنے لگا ہے حرف، چمن کے جمال پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
مجھ برگِ خشک سے کہ ابھی ہوں جو ڈال پر
آنے لگا ہے حرف، چمن کے جمال پر
ممنوع جب سے آبِ فراتِ نمو ہوا
کیا کچھ گئی ہے بِیت، گلستاں کی آل پر
مانندِ زخم، محو شجر سے بھی ہو گئے
چاقو کے ساتھ نام کھُدے تھے جو چھال پر
گُرگانِ باتمیز بھی ملتے ہیں کُچھ یہاں
کیجے نہ اعتبار دکھاوے کی کھال پر
ماجدؔ رہیں نصیب یہ دانائیاں اُنہیں
قدغن لگا رہے ہیں جو برقِ خیال پر
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑