ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
فساد و جبر کے چانٹوں سے منہ ہے لال مرا
محال تر ہے بہ ہر حال، اندمال مرا
طویل دوڑ کے ہائے یہ آخری پھیرے
صدی صدی کے برابر ہے سال سال مرا
بہم ہُوا نہ جہاں میں کسی بھی قاروں کو
مرا وہ رخت ہے سرمایۂ خیال مرا
یہ زہر بھی ہے تو تریاق مجھ کو لگتا ہے
دوام دے مجھے اندیشۂ زوال مرا
نہ دسترس میں ہو چالاک صَیدِ مضموں تو
نشانہ چُوک بھی جاتا ہے خال خال مرا
وہ نامراد مجھے بامراد کیا کرتا
یقین میں نہیں بدلا یہ احتمال مرا
مرے کلام میں پنہاں ہے جیسے برقِ خیال
جمال ہی میں ہے ماجِد چھپا جلال مرا
ماجد صدیقی