تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

خواب

سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 173
شہر تو کیا ملک بھی بِن نظم کے بے آب تھا
سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا
ہم بھی رانجھے کی طرح کہتے یہی پائے گئے
ہائے وہ اُس کا بدن، مخمل تھا جو کمخواب تھا
خلق کے کردار سے جب سے لُٹی تھی راستی
سب شکم پُر تھے مگر دل کا سکوں نایاب تھا
شہ ہُوا جس شخص کو اُس کے جھڑے پر لگ گئے
جو بھی اہلِ تخت تھاایسا ہی بس سُرخاب تھا
طَے شدہ نظمِ حکومت کوئی بھی رکھتا نہ تھا
اَوج پانے کو جسے دیکھا وہی بے تاب تھا
جو سُجھائے گا نئی راہیں، رہے گا یاد بھی
وہ سخن ہم نے کہا ماجد کہ جو سُخناب تھا
ماجد صدیقی

خواب مرے اور خواب اور خواب، تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
آب مری اور مرے سُراب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
خواب مرے اور خواب اور خواب، تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
سروِ کِنارِ جُو کا اسیر، میں چشمِ آہو کا اسیر
میرا نشہ اور مری شراب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
میرے گمان اِنہی جیسے میرے یقین اِنہی جیسے
مجھ پر اُتری نئی کتاب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
میرے پروں کو دلائیں جِلا دیں یہ مجھے رفتارِ صبا
طُولِ سفر میں یہ مری رکاب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
اِن میں سحر کا عکس ملے رگ رگ تھر تھر رقص ملے
ہائے ملیں کب کب یہ شتاب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
یاد دلائیں نئے پن کی سوندھی مہک مٹی جیسی
گِھر گِھرکے آتے یہ سحاب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
طُرّۂ فن ہیں یہ ماجد کا متنَ سخن ہیں یہ ماجد کا
جنسِ معانی کے ہیں یہ باب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
ماجد صدیقی

گناہگار ہیں ہم، ہم سے اجتناب، جناب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
بشر کی چاہ کا ہم سے ہے انتساب، جناب
گناہگار ہیں ہم، ہم سے اجتناب، جناب
کبھی تو عظمتِ انساں فلک نشاں ہو گی
کبھی تو پائیں گے تعبیر اپنے خواب، جناب
گرا پڑا ہمیں دیکھا تو تم کہ جارح تھے
تمہیں بھی ہونے لگا کیوں یہ اضطراب، جناب
گھٹا کے رقص کی ہو یا تمہارے قرب کی ہو
نئی رتوں کی طراوت بھی ہے شراب، جناب
ہر ایک ٹیڑھ تمہاری، ہماری سیدھ ہوئی
یہ تم کہ خیر سے ہو اپنا انتخاب، جناب
یہاں کی لذّتیں برحق مگر بہ عمرِ اخیر
بھگت رہے ہیں ہمِیں کیا سے کیا عذاب، جناب
ادا لتا کی زباں سے جو ہو سکے ماجد
غزل اک ایک تمہاری ہے لاجواب، جناب
ماجد صدیقی

چَودھواں مُکھ مہتاب کا، جاناں! تیرا سامنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
کھلتا پھول گلاب کا، جاناں! تیرا سامنا
چَودھواں مُکھ مہتاب کا، جاناں! تیرا سامنا
جذبوں کو لرزائے ہے، ہوش، حواس بھلائے ہے
پھیلا نشہ شراب کا، جاناں! تیرا سامنا
آنکھوں کو سہلائے ہے، جذبوں کو گرمائے ہے
یک جا رنگ شباب کا، جاناں! تیرا سامنا
کوڑی دُور کی لائے ہے، ساتھ ہی ساتھ جگائے ہے
کھٹکا ترے حجاب کا، جاناں! تیرا سامنا
دُور کرے بیزاریاں، دکھلائے گُلکاریاں
موسم جُھکے سحاب کا، جاناں! تیرا سامنا
کھولے ہے اسرار جو، لائے نئے نکھار جو
نقشہ نئی کتاب کا، جاناں! تیرا سامنا
اندیشہ سا گھیر لے، کب تُو آنکھیں پھیر لے
منظر ہے اِک خواب کا، جاناں! تیرا سامنا
ماجد صدیقی

منعکس ذہن میں ہے ہائے یہ کس دَور کا خواب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
رحلِ دل پر اتر آئی ترے چہرے کی کتاب
منعکس ذہن میں ہے ہائے یہ کس دَور کا خواب
ہم سے مانگے ہے وہ خیرات بھی صرفِ جاں کی
اور پاسخ بھی وہ مکتوب کا مانگے ہے شتاب
بام پر تیرے کبوتر کی غٹر غُوں اُتری
دل کہے یہ ترے سندیس کی ہے موجِ شراب
مستقل جان نہ کوئی بھی سہولت وقتی
دیکھنا ٹوٹ نہ جائے کہیں خیمے کی طناب
برق بھی ساتھ ہی ژالوں کے لپکتی لاگے
ایک کم تھا؟ کہ اُتر آیا ہے اک اور عذاب
کیا خبر رحمتِ وافر کی خبر لایا ہو
تیرتاآئے ہے وہ دُور سے اک سُرخ سحاب
ہو بھلے آنکھ مٹّکا وہ کوئی بھی ماجد!
جو بھی ہوتا ہے وہ ہوتا ہے سدا زیرِ نقاب
ماجد صدیقی

مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 101
یہ روز و شب مرے سر ہی عذاب سا کیا ہے
مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے
یہی متاع‘ یہی آرزو ہے دان ترا
یہ میری سطح پہ پھٹتا حباب سا کیا ہے
کہوں نہ کیوں ترے منہ پر جو مجھ پہ گزرے ہے
مجھے یہ باک سا تجھ سے حجاب سا کیا ہے
ہوئی نہ سیر کہیں بھی مری عمق نظری
مری نظر سے گزرتا یہ خواب سا کیا ہے
ملا ہے جو بھی رُتوں سے، پڑے گا لوٹانا
نمو طلب تھے تو اب سے پیچ و تاب سا کیا ہے
قرارِ جاں ہے تو ماجدؔ اُسے تلاش بھی کر
حصولِ یار سے یہ اجتناب سا کیا ہے
ماجد صدیقی

روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
گھِر گئی ہے رُوح اپنی جانے کس گرداب میں
روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں
یاس کی خشکی، نمِ اُمید کی بہتات سے
ایک کائی سی جمی ہے دیدۂ بے خواب میں
میں کہ تنہائی میں تھا بے در حویلی کی طرح
بند کمرہ سا بنا بیٹھا ہوں اب احباب میں
دل کہ باغی لہر تھا اب پیرہن ذرّوں کا ہے
ڈھل گیا ہے یہ بھی آخر زیست کے آداب میں
اُکھڑے حرفوں کی کتابِ زیست کے اوراق پر
چیونٹیاں سی کسمساتی ہیں سکوں کے باب میں
کچھ ہَوا یا دھوپ ہی ماجدؔ مرے درپے نہ تھی
جانے کیا کچھ اور بربادی کے تھا اسباب میں
ماجد صدیقی

میں تِیرہ بخت ہوں ،دے، آفتاب دے مُجھ کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
نئی رُتوں،نئی فصلوں کی تاب دے مُجھ کو
میں تِیرہ بخت ہوں ،دے، آفتاب دے مُجھ کو
جو مُجھ کو حوصلہ، جِینے کا حوصلہ دے دیں
اُڑوں میں جِن کے سہارے وُہ خواب دے مُجھ کو
یہ تُو جو خود ہی کرے شاد، پِھر کرے ناشاد
یہ کیا مذاق ہے بس یہ جواب دے مُجھ کو
مری بساط بھی دیکھ اے خُدا! خُدا ہے جو تُو
میں جِن کا اہل ہوں ایسے عذاب دے مُجھ کو
ہُوا جو مجھ پہ ہر اُس ظلم کی تلافی ہو
مرے زماں!کوئی ایسا خطاب دے مُجھ کو
مجھے جو دے تو کوئی نعمتِ فراواں دے
تووں سا تپنے لگا ہُوں سحاب دے مُجھ کو
لہو کے بیچ سے جو حِدّتِ سکوں بخشے
رگوں سے خِلق ہو جو وُہ شراب دے مُجھ کو
ماجد صدیقی

یہ سہم سا خواب خواب کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
دہشت ہے کہ اضطراب کیا ہے
یہ سہم سا خواب خواب کیا ہے
کھولا ہے یہ راز رہزنوں نے
کمزور کا احتساب کیا ہے
دھرتی یہ فلک سے پُوچھتی ہے
پاس اُس کے اَب اور عذاب کیا ہے
مشکل ہوئی اب تمیز یہ بھی
کیا خُوب ہے اور خراب کیا ہے
کہتے ہیں جو دل میں آئے ماجدؔ!
ایسا بھی ہمیں حجاب کیا ہے
ماجد صدیقی

ہَوا اسیر ہے لیکن ابھی حباب میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
بجا کہ زور بہت کچھ گرفتِ آب میں ہے
ہَوا اسیر ہے لیکن ابھی حباب میں ہے
کرم کے ساتھ غضب بھی ہے اُس سے وابستہ
اگر ہے آب تو پھر برق بھی سحاب میں ہے
نہ بے زباں ہے نہ قادر ہے نطق پر اپنے
ہر ایک شخص مسلسل اِسی عذاب میں ہے
نہاں بھی ہے تو کہاں تک رہے گا پوشیدہ
جو حرف وقت کی تعزیّتی کتاب میں ہے
کوئی تو معجزہ دکھلائے گا فراق اُس کا
ہر ایک رگ میں لہو جس سے اضطراب میں ہے
سبھی رُتوں کی طرف سے اُسے سلام کہ جو
کھِلے گلاب کی مانند کشتِ خواب میں ہے
بنی ہے شہر میں جو خارِ ہر زباں ماجد!ؔ
وہ ساری بات ترے ایک شعر ناب میں ہے
ماجد صدیقی

کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
سر سے تا پا حجاب سا وُہ
کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ
اُبھرے بھی جو سطحِ آرزُو پر
رُوکے نہ رُکے حباب سا وُہ
خوشبُو سا خیال میں دَر آئے
آنکھوں میں بسے گلاب سا وُہ
سب تلخ حقیقتوں پہ حاوی
رہتا ہے نظر میں خواب سا وُہ
حاصل ہے سرشکِ لالہ رُو کا
محجوب سا‘ دُرِّ آب سا وُہ
چھایا ہے بہ لُطف ہر ادا سے
خواہش پہ مری نقاب سا وُہ
ہُوں جیسے، اُسی کے دم سے قائم
تھامے ہے مجھے طناب سا وُہ
بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
ماجدؔ ہو یہ جسُتجو مُبارک
ہاتھ آ ہی گیا سراب سا وُہ
ماجد صدیقی

نہ سہی پہ کُچھ تو ترا جواب ہے سامنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
جو نہیں ہے تُو، تو یہ ماہتاب ہے سامنے
نہ سہی پہ کُچھ تو ترا جواب ہے سامنے
ہے رواں لُہو میں ترے ہی لمس کا ذائقہ
شب و روز اک یہی عکسِ خواب ہے سامنے
وُہی جس کی آس مشامِ جاں کو رہی سدا
سرِ شاخِ شب وُہ کھِلا گلاب ہے سامنے
تری دید ہے کہ نظر میں حرف سُرور کے
ترا قرب ہے کہ کھُلی کتاب ہے سامنے
یہی شے تو وجہِ قیام خیمۂ لُطف ہے
یہ جو دو حدوں میں تنی طناب ہے سامنے
ہے تجھی سی پیاس اِسے بھی لختِ زمین جاںِ
یہی جو نظر میں تری سحاب ہے سامنے
وُہی کھو گئی تھی جو تُجھ سے ماجدِ ؔ بے سکوں
وُہی دیکھ! ساعتِ اضطراب ہے سامنے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑