ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 164
غاصبِ تخت نہ جو صاحبِ ایقاں نکلا
ہو کے معزول حدِ ملک سے عُریاں نکلا
لوٹ کر پر بھی نشیمن میں نہ اُس کے پہنچے
گھونسلے سے جو پرندہ تھا پرافشاں نکلا
ہاں وہی کچھ ہی تو رکھتے ہیں سیاست داں بھی
ہیروئن والوں کے گھر سے ہے جو ساماں نکلا
عدل خواہی کی اذاں کیسے لبوں پر آتی
شہر کا شہر ہی جب شہرِ خموشاں نکلا
فیصلے اور کے توثیق تھی جن پر اُس کی
وہ بھی انصاف کے حُجلوں سے پشیماں نکلا
تھا بدن جس کا ہمیں حفظ کتابوں جیسا
ہم سے وہ شخص بھی ابکے ہے گریزاں نکلا
تیرا ہر بَیت ہے کھنگال کے دیکھاہم نے
آج کا عہد ہی ماجد ترا عنواں نکلا
ماجد صدیقی