ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
میرے انگناں پھول کھلا دے خوشبودار، سہانے ہُو
تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو
خلقِ خدا کے حق میں میرے خواب وُہ سچّے ہو جائیں
میں جن خوابوں کے بُنتا رہتا ہوں تانے بانے ہُو
حملہ آوروں، قْزّاقوں پر، گُستاخوں، منہ زوروں پر
میں جو تیر چلاؤں کیونکر ملیں نہ اُنہیں نشانے ہُو
میں اپنی بد بختی پر کاہے کو سبب ٹھہراؤں انہیں
نام پہ اچھّوں اور سچّوں کے بنتے ہیں جو فسانے ہُو
جس بھی شخص نے اپنی ریاضت سے قد کاٹھ نکالا ہے
اُس کو بَونے زچ کردیں گے، دِل یہ بات نہ مانے ہُو
کل کچھ بچّے باہم حسرتیں بانٹ رہے تھے یہ کہہ کر
عیدکا چندا ماموں آیا۔۔۔ عیدیاں اُنہیں دلانے ہُو
ننھی چیونٹیوں جیسا عزم لیے دل میں جب نکلا تو
ماجد کو بھی ملے ہیں سخن کی شیرینی کے خزانے ہُو
ماجد صدیقی