ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 205
بچھڑے جب اُس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے’ دل کی کتاب میں
میدانِ زیست میں تو رہے تھے دلیر ہم
کمزور تھے تو صرف’ محبّت کے باب میں
کیا کیا بُرائیاں نہ سہیں جان و دل پہ اور
لوٹائیں نیکیاں ہی جہانِ خراب میں
تازہ نگاہ’ جس نے کیا ہم کو بار بار
کیا خوبیاں تھیں اُس کے بدن کے گلاب میں
قائم رہا اُسی کے سبب خیمہئ حیات
تھا جتنا زور’ خاک میں اُتری طناب میں
مدّت سے دل مرا ہے جو تاریک کر گیا
آتا ہے چودھویں کو نظر ماہتاب میں
نااہل ناخداؤں کی ناؤ میں جب سے ہے
ماجدگِھری ہے خلقِ خدا’ کس عذاب میں؟
ماجد صدیقی