تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

حسیں

میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
تسکینِ قلب جس سی، کسی میں کہیں نہیں
میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں
ہاں ہاں رہے وہ میری رگِ جاں سے بھی قریب
ہے کو نسا پہر کہ وہ دل کے قریں نہیں
اُس کے لبوں سے لب جو ہٹیں تو کُھلے یہ بات
اُس کے لبوں سی مَے بھی نہیں، انگبیں نہیں
ابر وہیں اُس کے، آنکھ کا اُس کی خُمار الگ
صدرنگ اُس کی شکل سا کوئی نگیں نہیں
ہرشب ہیں جس کے رُوئے منوّر کے رنگ اور
جی! چاند تک بھی اُس سا درخشاں جبیں نہیں
اُس کی قرابتوں کے مضامیں جُدا جُدا
ہاں سچ ہے اُس سی کوئی غزل کی زمیں نہیں
ماجد ہیں جس کی خلوتیں تک مجھ پہ واشگاف
اُس جانِ جاں سے آنکھ چُراؤں نہیں نہیں
ماجد صدیقی

تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
ہر حرف تُجھ بدن کا نظر کے قریں لگے
تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے
آتا ہو چھُو کے جیسے ترے ہی جمال کو
اب کے تو ہر خیال مجھے شبنمیں لگے
چھایا ہے وُہ خمار تری صبحِ یاد کا
جو موجۂ صبا ہے مے و انگبیں لگے
شعلے تمام اس میں تری دید ہی کے ہیں
میری نگاہ کیوں نہ بھلا آتشیں لگے
انوار اور بھی تو پہنچ میں ہیں اب مری
کیوں کریہ ایک چاند ہی تیری جبیں لگے
میرے لُہو کا حسُن بھی جھلکے بہ حرف و صوت
ہاں اپنے ہاتھ تُجھ سا اگر نازنیں لگے
خوشبُو ہے اس میں رنگ ہیں، ندرت ہے تہ بہ تہ
ماجدؔ کا شعر تیرے بدن کی زمیں لگے
ماجد صدیقی

چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
زہر اب ہے، مے ہے، انگبیں ہے
چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے
انوار ہی پھُوٹتے ہیں اُس سے
زرخیز بڑی وُہ سرزمیں ہے
جو ناز کرے اُسے روا ہے
وُہ شوخ ہے، شنگ ہے، حسیں ہے
ہالہ ہے کہ اُس کا ہے گریباں
مطلع ہے کہ اُس کی آستیں ہے
کیا ذکر ہو اُس کے آستاں کا
جو لطف ہے جانئے وہیں ہے
نسبت ہے یہی اب اُس سے اپنی
ہم خاتمِ چشم، وہ نگیں ہے
حرفوں سے جو منعکس ہے ماجدؔ
یہ بھی تو جمالِ ہم نشیں ہے
ماجد صدیقی

ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
ذرّوں سے پہچان ہے ضو کی، ماہِ مبیں کوئی اور
ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور
بال یہ پُوچھے منکرِ یزداں ہیں جو ہیں اور کثیر
اُنکے نصیبوں میں بھی ہے کیا فردوسِ بریں کوئی اور
آتی جاتی سانسوں کا بھی رکھ نہ سکیں جو حساب
دشمن ہیں تو ایک ہمِیں اپنے ہیں ،نہیں کوئی اور
چاند کو بس گھٹتا ہی دیکھیں اور رہیں رنجور
اِس دنیا میں شاید ہی ہو ہم سا حزیں کوئی اور
دل جس کو دینا تھا دیا اور اب ہے کہاں یہ تاب
دل کی لگن میں دیکھ لیا ہے جیسے حسیں کوئی اور
ہم ذی جوہر ہیں، یہ گماں ماجدؔ تھا گمانِ محض
اوج کی انگوٹھی میں سجا ہے دیکھ! نگیں کوئی اور
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑