تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

جاں

کہہ کے سچ اخبار نے چہرہ گلستاں کردیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 179
خونِ ناحق کا اِک اِک دھبّہ نمایاں کردیا
کہہ کے سچ اخبار نے چہرہ گلستاں کردیا
سنسنی کی بھیج کر خبریں فضائے دہر نے
خود پرِیشاں تھی ہمیں بھی ہے پرِیشاں کردیا
لمحۂ گزراں نے رُوئے قاتل و دلدار کو
ہاں ہمارے ہی لیے تو، ہے رگِ جاں کردیا
پرسشِ پُرفن سے دل کی تہہ میں جو جو تھا ملال
یارلوگوں نے اُسے رنجِ فراواں کردیا
جیسے کرنیں ہوں دلِ اندوہگیں میں آس کی
جگنوؤں نے رات کو کیا کیا درخشاں کردیا
وسعتِ دشتِ تعلق میں اکیلا چھوڑ کر
کیوں غزالِ جاں کو ہم نے نذرِ گُرگاں کردیا
پوچھتے ہیں مبتدی مجھ سے کہ اے ماجد میاں!
کس طرح تو نے غزل کو ہے دبستاں کردیا
ماجد صدیقی

اے شہِ عاجز! وقارِ خلق ارزاں اور کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
چادریں نُچتی ہیں جن کی اُن کو عریاں اور کر
اے شہِ عاجز! وقارِ خلق ارزاں اور کر
اپنی قامت ناپ اُن کے ساتھ بے وقعت ہیں جو
جو پریشاں حال ہیں اُن کو پریشاں اور کر
کر نمایاں اور بھی ہر دستِ حاجت مند کو
ضعف سے لرزاں ہیں جو وہ ہاتھ لرزاں اور کر
مایۂ خلقت پہ حاتم طائیاں اپنی دِکھا
داغ ناداری کے ماتھوں پر نمایاں اور کر
چھین لے فریاد کی نم بھی لبوں کی شاخ سے
نیم جاں ہیں جس قدر تُو اُن کو بے جاں اور کر
گھیر کر لا ریوڑوں کو جانب گُرگانِ دشت
مشکلیں اُنکی جو ذی وحشت ہیں آساں اور کر
جتنے ماجد ہیں یہاں گریہ کناں اُن پر برس
چیختے ہرنوں کو جنگل میں ہراساں اور کر
ماجد صدیقی

بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
بہت مشکل ہے ملنا ہم سے اُس حُسنِ گریزاں کا
بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا
کناروں پر کے ہم باسی، نہ جانیں حال اندرکا
خبرنامہ عجب سا ہو چلا وسطِ گُلستاں کا
اخیرِ عمر، پِیری جس کو کہتے ہیں، کچھ ایسا ہے
شبانِ سرد میں پچھلا پہر جیسے زمستاں کا
بہ دوش و سر گھٹائیں ناچتی ہیں جیسے ساون کی
بہ دَورِ نَو بھی درجہ کم نہیں زُلفِ پریشاں کا
بہت پہلے کے دن یاد آ چلے ہیں اپنے ماضی کے
ہُوا جب اُستوار اُس سے کبھی رشتہ رگِ جاں کا
وہیں سے تو ہمیں بھی ہاتھ آیا سخت جاں ہونا
ہمارا بچپنا ہوتا تھا جب موسم کُہِستاں کا
شروعِ عمرہی سے ہے یہی پیشِ نظر ماجد!
غزل کو چاہیے رُتبہ میّسر ہو دَبِستاں کا
ماجد صدیقی

کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 86
نسبت وہ سخن سے ہو اِک نطق رواں ٹھہروں
کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں
ایسا بھی کوئی منظر دکھلائیں تو دُنیا کو
تو گل بکنارِ جو، میں آبِ رواں ٹھہروں
اتنی تو مجھے آخر، اظہار کی فرصت دے
تو راز ہو سربستہ، میں تیرا بیاں ٹھہروں
ہر دم‘ دمِ عیسٰی ہے اپنا بھی، جو پہچانوں
ہوں عہد نئے پیدا، پل بھر کو جہاں ٹھہروں
یہ شہر تو اب جیسے اک شہرِ خموشاں ہے
کس در سے گزر جاؤں، ٹھہروں تو کہاں ٹھہروں
صورت مرے جینے کی ماجدؔ ہو صبا جیسی
نس نس میں گُلوں کی مَیں، اُتری ہوئی جاں ٹھہروں
ماجد صدیقی

اے لرزتے زرد پتّے مت خزاں کی بات کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
خاک میں ملنے پہ در آتے زماں کی بات کر
اے لرزتے زرد پتّے مت خزاں کی بات کر
تیرنے کو ہیں یہ نیّائیں فراتِ زیست میں
بات کر ایقان کی یا تُو گماں کی بات کر
ہاں وہی جو ہم نے حفظِ جاں کو حاصل کی نہیں
اور ہمیں پر جو تنی ہے اُس کماں کی بات کر
جس کے فیض و غیض ہر دو میں دوگونہ لطف ہے
چھوڑ سارے مخمصے اُس جانِ جاں کی بات کر
ہم فرشتے تو نہیں،نوری ہوں کیا خاکی سے ہم
اے زمیں زادے! نہ ہر دم آسماں کی بات کر
غیر ہیں جو گنبد و مِینار ماجِد کیا ہیں وُہ
دیس سے نکلا ہے اپنے آستاں کی بات کر
ماجد صدیقی

ایسا بھی کبھی حشر گلستاں میں کہاں تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
تھا جو بھی شجر عرش نشاں، فرش نشاں تھا
ایسا بھی کبھی حشر گلستاں میں کہاں تھا
کانٹوں پہ لرزتی تھی تمنّاؤں کی شبنم
چھالا سا ہر اِک لفظ سرِ نوکِ زباں تھا
ہونٹوں نے بھی لو، زہرِ خموشی سے چٹخ کر
سیکھا وُہی انداز جو مرغوبِ شہاں تھا
باز آئے گھٹانے سے نہ جو رزقِ گدا کو
اَب کے بھی سرِ شہر وُہی شورِ سگاں تھا
توصیف کا ہر حرف مثالِ خس و خاشاک
دیکھا ہے جہاں بھی پسِ شہ زور رواں تھا
غافل نظر آیا نہ کبھی وار سے اپنے
وُہ خوف کا خنجر جو قریبِ رگ جاں تھا
مجروح پرندوں سی جو پیوندِ زمیں ہے
ماجدؔ نگہِ شوق پہ کب ایسا گماں تھا
ماجد صدیقی

گرد کے طوفاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
سانس میں غلطاں
گرد کے طوفاں
مِلک ہے اپنی
رنجِ فراواں
اُڑنے لگا کیوں
رنگِ گُلستاں
ہاتھ ہوا کے
برگ، پَرافشاں
غُنچہ و گُل ہیں
خاک بہ داماں
جبر کا نشتر
نِزدِ رگِ جاں
ہر رُخِ انور
ششدر و حیراں
عمر ہے جیسے
شامِ غریباں
مُزرعۂ ماجِد
دیدۂ گِریاں
ماجد صدیقی

میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
جہاں کُھلیں مرے جَوہر وہ آسماں دے دے
میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے
مرے سکوں کا جو، میری بقا کا ضامن ہو
جو مختلف ہو قفس سے، وہ آشیاں دے دے
کہوں جو بات وہ جھومر، جبینِ وقت کا ہو
جو حق سرا ہو، وہ منصور سی زباں دے دے
کٹی جو رات تو، نجمِ سحر سے میں نے کہا
میں جی اٹھاہوں مرے کان میں اذاں دے دے
جو بعدِ جنگ علامت ہو، سرفرازی کی
عَلم وہ دے مرے ہاتھوں میں، وہ نشاں دے دے
سو یُوں ہُوا کہ ہُوا اُس کا، اِک مکیں میں بھی
طلب یہ کی تھی ،مجھے وادیٔ سَواں دے دے
جب آئے جی میں تری بزم میں چلا آؤں
یہ اِذنِ خاص بھی،ماجد کو، جانِ جاں دے دے
ماجد صدیقی

منظر وہ ابھی تم نے مری جاں! نہیں دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 155
ہوتے ہیں بدن کیسے گلستاں، نہیں دیکھا
منظر وہ ابھی تم نے مری جاں! نہیں دیکھا
ہم صبح ومساجان بہ لب حبسِ چمن سے
اور ہم پہ عتاب اُن کو کہ زنداں نہیں دیکھا
جس شاخ کو تھی راس نہ جنبش بھی ہَوا کی
پھل جب سے لُٹے پھر اُسے لرزاں نہیں دیکھا
چھلکا ہے جو آنکھوں سے شبِ جور میں اب کے
ایسا تو کبھی رنجِ فراواں نہیں دیکھا
مدّاح وہی اُس کے سکوں کا ہے کہ جس نے
مہتاب سرِغرب پر افشاں نہیں دیکھا
جب تک ہے تصّرف میں فضا اُس کے بدن کی
ہم کیوں یہ کہیں تختِ سلیماں نہیں دیکھا
دیوار کے کانوں سے ڈرا لگتا ہے شاید
ماجدؔ کو کئی دن سے غزل خواں نہیں دیکھا
ماجد صدیقی

مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 125
معاملہ ہی رہائی کا اُس بیاں پر تھا
مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا
مثالِ ریگ ہوا نے اُسے بکھیرا ہے
جو لختِ ابر کبھی اپنے گلستاں پر تھا
یہ کربِ عجز تو ماتھا ہی جانتا ہے مرا
گُہر مراد کا کس کس کے آستاں پر تھا
ثمر تو تھے ہی مگر سنگ بھی تھے شاخوں پر
وُہ جن کا بوجھ مسلسل شجر کی جاں پر تھا
نشیبِ خاک سے کیا اُس کی پیروی کرتے
مقدّمہ ہی ہمارا جب آسماں پر تھا
لُٹے بھی گر تو زباں پر نہ ہم کبھی لائے
وہ اِتّہام کہ ہر دَور میں خزاں پر تھا
بھُلا سکے نہ وہ پل اُس کے قُرب کا ماجدؔ!
جب اپنا ہاتھ اندھیرے میں پرنیاں پر تھا
ماجد صدیقی

دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
اظہار کو تھا جس کی رعُونت پہ گماں اور
دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور
کہتی ہیں تجھے تشنہ شگوفوں کی زبانیں
اے ابر کرم ! کھینچ نہ تو اپنی کماں اور
ہر نقشِ قدم، رِستے لہو کا ہے مرّقع
اِس خاک پہ ہیں، اہلِ مسافت کے نشاں اور
نکلے ہیں لئے ہاتھ میں ہم، خَیر کا کاسہ
اُٹھنے کو ہے پھر شہر میں، غوغائے سگاں اور
صیّاد سے بچنے پہ بھی ، شب خون کا ڈر ہے
اب فاختہ رکھتی ہے یہاں ، خدشۂ جاں اور
دیکھیں گے، گرانی ہے زمانے کی یہی تو
سبزے کے کچلنے کو ابھی ، سنگِ گراں اور
ماجد وُہی کہتے ہیں، تقاضا ہو جو دل کا
ہم اہلِ سیاست نہیں، دیں گے جو بیاں اور
ماجد صدیقی

کسی پہلو تو ذکرِ گل رُخاں ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
مہک ہو یا میانِ لب فغاں ہو
کسی پہلو تو ذکرِ گل رُخاں ہو
زباں سے کُچھ سوا لطفِ بدن ہے
سراپا تم حریر و پرنیاں ہو
تمہارے حق میں کیا جانوں کہوں کیا
سُرورِ چشم ہو تم لطفِ جاں ہو
لپک کر لیں جسے پانی کی لہریں
کنارِ آب وہ سروِ رواں ہو
مرے افکار کی بنیادِ محکم
مرے جذبات کی ناطق زباں ہو
کبھی ماجدؔ کے حرفوں میں بھی اُترو
بڑی مُدّت سے تنہا ضوفشاں ہو
ماجد صدیقی

چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
حُسن اُس کا بحّدِ نہاں دیکھنا
چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا
کیُوں نہ ہم اِس ادا پر ہی مرتے رہیں
چھیڑنا اور اُسے بدگماں دیکھنا
کنجِ لب جیسے کھڑکی کُھلے خُلد کی
قامت و قد کو طوبیٰ نشاں دیکھنا
ہائے وُہ ہاتھ جن کی ہے تحریر وُہ
حرف در حرف مخفی جہاں دیکھنا
اُس کے رُخ پرنظر کا نہ ٹِکنا تو پھر
دفعتاً جانبِ آسماں دیکھنا
اُس کے پیکر سے اپنی یہ وابستگی
گنگُ لمحوں کے منہ میں زباں دیکھنا
آنکھ سے تو شراروں کا جھڑنا بجا
لمس تک سے بھی اُٹھتے دُھواں دیکھنا
نازکی اُس کی اور تشنگی شوق کی
نوک پر خار کی پرنیاں دیکھنا
اس بیاں پر نہ معتوب ٹھہرو کہیں
دیکھنا ماجدِ خستہ جاں دیکھنا
ماجد صدیقی

جھیل میں اُس کو میں نے عریاں دیکھ لیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
مجھ سے تھا، جو چاند گریزاں دیکھ لیا ہے
جھیل میں اُس کو میں نے عریاں دیکھ لیا ہے
دیکھ لیا ہے، تنکے کو، پانی پر بہتے
دل نے ہو کر، عدل کا خواہاں دیکھ لیا ہے
راحت کا عرفان بھلا کیا اور مجھے ہو
برگ پہ قطرہ اوس کا رقصاں دیکھ لیا ہے
آخر کو ہونٹوں پر لا کر، حرف دُعا کا
ایک بگولا سا، پرافشاں دیکھ لیا ہے
آز میں خواہش کی تکمیل کے، پڑ کر ماجدؔ
جبر کا کیا کیا بار، سرِ جاں دیکھ لیا ہے
ماجد صدیقی

پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
خلق نے تو اس کو ایسے میں بھی ذی شاں کہہ دیا
پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا
رزق نے جس کے مجھے پالا ہے جس کا رزق ہوں
کہہ دیا اس خاک کو میں نے رگِ جاں کہہ دیا
اِس تمنّا پر کہ ہاتھ آ جائے نخلستاں کوئی
خود غرض نے دیکھ صحرا کو گلستاں کہہ دیا
ہمزبانِ شاہ وہ بھی تھے جنہوں نے آز میں
رات تک کو، یار کی زلفِ پریشاں کہہ دیا
میں وہ خوش خُو جس نے دو ٹانگوں پہ چلتا دیکھ کر
شہر کے بن مانسوں تک کو بھی انساں کہہ دیا
کیا کہوں کیوں میں نے سادہ لوح چڑیوں کی طرح
وقفۂ شب کو بھی تھا صبحِ درخشاں کہہ دیا
اس کے ناطے، درگزر جو محض عُجلت میں ہوئی
گرگ کو بھی بھیڑ نے ماجدؔ پشیماں کہہ دیا
ماجد صدیقی

ہے میّسر مجھے انساں ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
قّصۂ دہر کا عنواں ہونا
ہے میّسر مجھے انساں ہونا
کتنا مشکل ہے ترے غم کا حصول
کتنا مشکل ہے پریشاں ہونا
تو مری روح میں، وجدان میں ہے
تجھ کو حاصل ہے مری جاں ہونا
مہر کو سر پہ سجانا پل بھر
پھر شبِ سردِ زمستاں ہونا
پھُولنا شاخ پہ غنچہ غنچہ
اور اِک ساتھ پریشاں ہونا
کب تلک خوفِ ہوا سے آخر
ہو میسّر، تہِ داماں ہونا
تھے کبھی ہم بھی گلستاں ماجدؔ
اَب وطیرہ ہے بیاباں ہونا
ماجد صدیقی

چھوڑتا ہی نہیں اندیشۂ جاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
دل پہ چھایا ہے وہ احساسِ گراں
چھوڑتا ہی نہیں اندیشۂ جاں
جب بھی گزرے ہیں تری یاد میں دن
کھِل اُٹھے پھُول سرِ جوئے رواں
سُونا سُونا ہے نظر کا دامن
چھُپ گیا ہے وہ مرا چاند کہاں
شعلۂ گل سے دئیے تک ماجدؔ
اُٹھ رہا ہے مری آہوں کا دھُواں
ماجد صدیقی

کیا کہوں ذکر ترا کیسے رواں ہوتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
جب بھی ہوتا ہے بہ احساسِ گراں ہوتا ہے
کیا کہوں ذکر ترا کیسے رواں ہوتا ہے
بِن ترے بھی مجھے محسوس ہوا ہے اکثر
جیسے پہلو میں کوئی ماہِ رواں ہوتا ہے
دیکھتا ہوں گلِ تر روز، بعنوانِ دگر
روز دل سے گزرِ شعلہ رُخاں ہوتا ہے
زندگی میں غمِ جاناں کا یہی حال رہا
جِس طرح پھول سرِ جُوئے رواں ہوتا ہے
درد کی آخری حد چھو کے مَیں کیوں گھبراؤں
رات ڈھلتی ہے تو کچھ اور سماں ہوتا ہے
ایک ہم ہی نہیں ماجدؔ رُخِ بے رنگ لئے
جو بھی ہو شعلہ بیاں، سوختہ جاں ہوتا ہے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑