تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

جائے

پھول کھلیں تو کیوں تُو اُنہیں جلائے یارا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 213
چہروں کا دُھندلانا تجھ کو بھائے یارا
پھول کھلیں تو کیوں تُو اُنہیں جلائے یارا
وہ جو تیری دِید کو ترسیں، اُنہیں رُلانے
ابر و ہوا کے پیچھے کیوں چھپ جائے یارا
وصل سے کترائے ہے ہجر کی آنچ دلائے
کتنے ستم ہیں تُو جو نت دُہرائے یارا
وہ کہ راہ میں تیری بِچھ بِچھ جاتے ہیں جو
چالوں کا جادُو کیوں اُن پہ جگائے یارا
جانیں جائیں پر تُو تخت بچا لے اپنا
خلقِ خدا کو کس کس طَور نچائے یارا
اُن ہاتھوں کو جو فریاد بکف اُٹھتے ہیں
آہنی ہتھکڑیاں کیا کیا پہنائے یارا
ماجِد تیرا سخن ہے تیرا سدا کا جوبن
تُو چندا سا کاہے کو گہنائے یارا
ماجد صدیقی

بار بار جو تجھ پر ’’جِندڑی” وارے یارا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
رُوگردانی اُس سے کیوں اپنائے یارا
بار بار جو تجھ پر ’’جِندڑی” وارے یارا
وہ کہ جو تری قرابت چاہیں، اُنہیں رُلانے
ابر و ہوا کے پیچھے کیوں چھپ جائے یارا
وہ کہ ہیں پہلے ہی سے اسیر ترے جادُو کے
چالوں کا جادُو کیوں اُن پہ جگائے یارا
وصل سے کترائے ہے ہجر کی آنچ دلائے
کتنے ستم ہیں تُو جو نت دُہرائے یارا
جانیں جائیں پر تُو تخت بچا لے اپنا
خلقِ خدا کو کس کس طَور نچائے یارا
اُن ہاتھوں کو جو فریاد بکف اُٹھتے ہیں
آہنی ہتھکڑیاں کیا کیا پہنائے یارا
ماجِد تیرا سخن ہے تیرا سدا کا جوبن
تُو چندا سا کاہے کو گہنائے یارا
ماجد صدیقی

زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
رنج ہے تجھ سے تو وہ راہِ سخن بھی پائے گا
زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا
میں کہ بھنوروں سی طلب لے کر رواں ہوں گُل بہ گل
کوئی قاتل اِس طلب پر بھی تو غالب آئے گا
تُو کہ پھولوں سی تمنّاؤں میں محوِ رقص ہے
تجھ سی تتلی کا سراپا بھی تو مسلا جائے گا
ہے شگفتِ گُل سے تحریکِ شگفتِ آرزو
دم بخود رہ کر نہ یہ موسم بِتایا جائے گا
اپنے قدِ فکر کو ماجدؔ نہ کر اِتنا سڈول
بعد تیرے کل ترا نقّاد بھی اِک آئے گا
ماجد صدیقی

رات گئے تک نیند نہ مجھ کو آئے گی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
سوچ بدن میں زہر نیا پھیلائے گی
رات گئے تک نیند نہ مجھ کو آئے گی
بار بار جو اُگ آتی ہے راہوں میں
کس کس سے دیوار یہ چاٹی جائے گی
ڈال ڈال کر کوسنے پھیلی جھولی میں
بُڑھیا دیر تلک اب تن سہلائے گی
آگ سے جس نے اپنا ناطہ جوڑ لیا
وُہ رسّی کیا اپنا آپ بچائے گی
لطف و سکوں کا جھونکا تک جو پا نہ سکی
قوم مری کس موسم پر اِترائے گی
ابکے آب میں جال بِچھا جو چَوطرفہ
مچھلی مچھلی اُس میں جان گنوائے گی
ماجِد کُود کے دیکھ تو عزم کے دریا میں
بعد کی صورت بعد میں دیکھی جائے گی
ماجد صدیقی

انگناں اُترا پُورا چندا آتی شب گھٹ جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
آج کے دن کا لطف اُٹھا لے، آج نہیں پِھر آئے گا
انگناں اُترا پُورا چندا آتی شب گھٹ جائے گا
انساں گِدھ یا زاغ نہیں ہے اُس سے مرے کب اُس کا ضمیر
چال چلے یا ظلم کرے وُہ،آخر کو پچتائے گا
اچّھا کر اور اچّھا کرکے،اُس کے انت کی فکر نہ کر
خَیر کے بِیج سے دیکھنا اِک دِن پَودا اُگ ہی آئے گا
ماجِداپنے سُخن کی ضَو پرپڑتے چھینٹوں کو یہ بتا
چاند پہ جو بھی تُھوکے گا آخر کو منہ کی کھائے گا
ماجد صدیقی

آندھی کب آداب اپنائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
آئے اور کہرام مچائے
آندھی کب آداب اپنائے
ہم پہ نگاہ پڑی ہے رُت کی
اُڑتی ریت ہمیں سہلائے
دکھلائیں ہر قد کو بڑھا کے
پچھلے پہر کے بڑھتے سائے
راہی ہمیشہ راہ نکالے
سانپ ہمیشہ پھن پھیلائے
بندہ خوشی خوشی کو پا کر
بچوں ایسی پینگ جُھلائے
وقت کی اَن جانی چالوں سے
کوہ بدن کا کُھرتا جائے
ماجد پائے رواں کیوں ٹھہرے
جب تک سانس نہ رُکنے پائے
ماجد صدیقی

خاک میں اشک بھلے مِل جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
صدیوں اپنی جوت جگائے
خاک میں اشک بھلے مِل جائے
ساون، کُوڑے کرکٹ میں بھی
اپنے ڈھب کے پھُول کھلائے
دید خُدا کی، چودھویں جس کی
وُہ چندا کب مُکھ دکھلائے
اِک پل پھُول سا کِھلنے والا
چہرہ، دُوجی پل کملائے
پیڑ وُہ تازہ دم کیا ہو گا
اُڑتی گرد جِسے سہلائے
ماجدؔ ہر اُمید کا پیکر
چاند کی صورت گھٹتا جائے
ماجد صدیقی

کب یہ اُمید بھی بر آئے گی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
کب صبا تیرا پتہ لائے گی
کب یہ اُمید بھی بر آئے گی
صبح کی خیر مناؤ لوگو
شب کوئی دم ہے گزر جائے گی
ایسے منظر ہیں پسِ پردۂ حُسن
آنکھ دیکھے گی تو شرمائے گی
دل کو پت جھڑ کی حکایت نہ سناؤ
یہ کلی تاب نہیں لائے گی
مَیں بھی ہوں منزلِ شب کا راہی
رات بھی سُوئے سحر جائے گی
پیار خوشبُو ہے چھُپائے نہ بنے
بات نکلی تو بکھر جائے گی
دل سے باغی ہے تمّنا ماجدؔ
ہو کے اب شہر بدر جائے گی
ماجد صدیقی

ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
تم بھُول گئے کہ یاد آئے
ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے
مرتے ہیں ہمیں ترے نہ ہوتے
روتے ہیں ہمیں ترے بِن آئے
گزرے ہیں تری گلی سے لیکن
دل تھامے ہوئے نظر چُرائے
ہم بھی ترے مُدّعی ہوئے تھے
ہم بھی غمِ ہجر ساتھ لائے
ظُلمت سے نظر چُرانے والو
شب، خونِ جگر نہ چاٹ جائے
سہلا نہ سکے اگر تو ماجدؔ
موسم، کوئی تِیر ہی چلائے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑