تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

جاؤں

بُوڑھے سے لڑکا بن جاؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
فیض اگر اِدراک سے پاؤں
بُوڑھے سے لڑکا بن جاؤں
بادل ہُوں تو پھر کاہے کو
اِک بستی پر ہی میں چھاؤں
علم نزاکتِ وقت کا ہو گر
صیغۂ غیب سے تِیر نہ کھاؤں
جن کی لگن میں جلاؤں کلیجہ
میں اُن کو اِک آنکھ نہ بھاؤں
بے حس ہیں جو منافق ہیں جو
کیوں مظلوم اُنہیں ٹھہراؤں
ماجِد تخت نشین نہ جانے
جو دُکھ میں فن میں گِنواؤں
ماجد صدیقی

میں سر سبز شجر جو پل پل اِیندھن بنتا جاؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
دے کر چھِیننے والے تیری دین کو کیا ٹھہراؤں
میں سر سبز شجر جو پل پل اِیندھن بنتا جاؤں
تیری سماعت کے در پر ہے بس یہ دستک میری
چندرماں ایسا گھٹتا بڑھتا میں راتیں چمکاؤں
اور بھی کِھل کِھل اُٹھیں میرے ہونٹ گُلابوں جیسے
حرفوں حرفوں اور بھی چیت رُتوں تک میں مسکاؤں
لہرائیں، رنگ لائیں میرے دل کی سب آشائیں
میں نے جو بِیجائیاں کی ہیں،اُن کی فصل اُٹھاؤں
ان کی مہک، ان کی شیرینی، لُطف دِکھائیں اپنے
پُھولنے پھلنے والی اپنی شاخوں پر اِتراؤں
اِیقان و فیضان سے میرے جو سرچشمہ پُھوٹا
اُس کی نم کی یاوری سے اِک اور جنم میں پاؤں
جس کا اُنس ہے، جس کی قرابت، ماجِد! دم خَم میرا
اورفرازوں، اُس سے اپنے قُرب کی پینگ جُھلاؤں
ماجد صدیقی

سال بہ سال نہ کیونکر میں بھی سالگرہ منواؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
’’مان مجھے‘‘ کی ہانک لگاؤں وقت کا شہ کہلاؤں
سال بہ سال نہ کیونکر میں بھی سالگرہ منواؤں
قطرہ ہوں اور دل میں دیکھو دُھن ہے کیا البیلی
بادل بن کر اِک اِک پیاسے کھیت پہ میں لہراؤں
مَیں تیرا ممنون ہوں سُن اے درد رسان زمانے!
گھڑیالوں سا گنگ رہوں گر میں بھی چوٹ نہ کھاؤں
ریت اور کنکر تو ہر رُت میں گرم ہوا برسائے
رات کی رانی عام کہاں میں جس سے تن سہلاؤں
عرش سے اُترا کون فرشتہ میری سُننے آئے
مَیں جو عادل تک کو بھی اکثر مجرم ٹھہراؤں
جان بھی جاتی ہے تو جائے پر یہ کب ممکن ہے
مَیں اور وقت کے پِیروں کے پس خوردے کو للچاؤں
جانے کس کے قرب سے ماجدؔ لاگا روگ یہ مجھ کو
ہر دم ایک ہی خبط ہے میں جھُوٹے کے گھر تک جاؤں
ماجد صدیقی

کتبوں جیسے لوگ ہیں ہر سُو پتھر بنتا جاؤں مَیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 107
کس سے اپنی بپتا چھیڑوں کس کو حال سناؤں مَیں
کتبوں جیسے لوگ ہیں ہر سُو پتھر بنتا جاؤں مَیں
نطق ہی ایک متاع تھی اپنی سو بے وَقر ہے برسوں سے
کون سی ایسی بات ہے جس پر محفل میں اِتراؤں مَیں
ہر پل ایک بدلتی رُت ہے رگ رگ میں ہے زہر نیا
کینچلیوں سے لگتے ہیں جو حرف زباں پر لاؤں مَیں
چہرہ چہرہ ایک اداسی صورت صورت صحرا ہے
کس گلشن پر ابر بنوں اور کون سے دشت پہ چھاؤں مَیں
نشوونمو کے حق میں دیکھے جو بھی خواب اُدھورے تھے
بِن پھل پات شجر ہوں ماجدؔ! گرد سے اٹتا جاؤں مَیں
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑