تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

تال

دِن دِن گنجینہ، لطفِ پامال کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 145
گزرے وقت کی بپتا حاصل سال کا ہے
دِن دِن گنجینہ، لطفِ پامال کا ہے
خدشہ ہے تو ہرپل سانس کے گھٹنے کا
مستقبل کا کیا ہو، رونا حال کا ہے
دہشت و وحشت میں موسیقی کیا پنپے
اُکھڑا اُکھڑا مُکھڑا ہرسُر تال کا ہے
قدم قدم پر کھال ادھڑتی لاگے ہے
حال بہت پتلا اپنی اس ڈھال کا ہے
قامت، بالا ہو نہ ہمِیں ناداروں کی
سِحر یہ ہم پر کس شاطر کی چال کا ہے
چہرہ چہرہ ایک اداسی چھائی ہے
کھنڈر کنڈر نقشہ تازہ جنجال کا ہے
ماجد اپنے بے دم دیس کے پیکر سے
گِدھ گِدھ ہی کا رشتہ ماضی و حال کا ہے
ماجد صدیقی

پھر بنامِ فلک عرضِ احوال کے پھول کھِلنے لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
تشنہ لب شاخچوں پر نئے سال کے پھول کھِلنے لگے
پھر بنامِ فلک عرضِ احوال کے پھول کھِلنے لگے
اک ذرا سی فضائے چمن کے نکھرنے پہ بھی کیا سے کیا
جسمِ واماندگاں پر خدوخال کے پھول کھِلنے لگے
کھولنے کو، ضیا پاش کرنے کو پھر ظلمتوں کی گرہ
مٹھیوں میں دمکتے زر و مال کے پھول کھلنے لگے
پنگھٹوں کو رواں، آہوؤں کے گماں در گماں دشت میں
لڑکھڑاتی ہوئی بے اماں چال کے پھول کھِلنے لگے
دھند چھٹنے پہ مژدہ ہو، ترکش بہ آغوش صیّاد کو
ازسرِ نو فضا میں پر و بال کے پھول کھِلنے لگے
ہے اِدھر آرزوئے بقا اور اُدھر بہرِ زندہ دلاں
فصل در فصل تازہ بچھے جال کے پھول کھِلنے لگے
ہم نے سوچا تھا کچھ اور ماجد، مگر تارِ انفاس پر
اب کے تو اور بے ربط سُر تال کے پھول کھِلنے لگے
ماجد صدیقی

پہنچا ہے اُس کا ذکر ہر اک بُک سٹال پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
فن سے مرے کہ ہے جو فرازِ کمال پر
پہنچا ہے اُس کا ذکر ہر اک بُک سٹال پر
ہونٹوں پہ رقص میں وُہی رنگینی نگاہ
محفل جمی ہوئی کسی ٹیبل کی تال پر
شیشے کے اِک فریم میں کچھ نقش قید تھے
میری نظر لگی تھی کسی کے جمال پر
ساڑھی کی سبز ڈال میں لپٹی ہوئی بہار
کیا کچھ شباب تھا نہ سکوٹر کی چال پر
ہنستی تھی وہ تو شوخیِ خوں تھی کُچھ اس طرح
جگنو سا جیسے بلب دمکتا ہو گال پر
رکھا بٹن پہ ہاتھ تو گھنٹی بجی اُدھر
در کھُل کے بھنچ گیا ہے مگر کس سوال پر
میک اَپ اُتر گیا تو کھنڈر سی وہ رہ گئی
جیسے سحر کا چاند ہو ماجدؔ زوال پر
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑