تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

تاب

سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 173
شہر تو کیا ملک بھی بِن نظم کے بے آب تھا
سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا
ہم بھی رانجھے کی طرح کہتے یہی پائے گئے
ہائے وہ اُس کا بدن، مخمل تھا جو کمخواب تھا
خلق کے کردار سے جب سے لُٹی تھی راستی
سب شکم پُر تھے مگر دل کا سکوں نایاب تھا
شہ ہُوا جس شخص کو اُس کے جھڑے پر لگ گئے
جو بھی اہلِ تخت تھاایسا ہی بس سُرخاب تھا
طَے شدہ نظمِ حکومت کوئی بھی رکھتا نہ تھا
اَوج پانے کو جسے دیکھا وہی بے تاب تھا
جو سُجھائے گا نئی راہیں، رہے گا یاد بھی
وہ سخن ہم نے کہا ماجد کہ جو سُخناب تھا
ماجد صدیقی

مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 101
یہ روز و شب مرے سر ہی عذاب سا کیا ہے
مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے
یہی متاع‘ یہی آرزو ہے دان ترا
یہ میری سطح پہ پھٹتا حباب سا کیا ہے
کہوں نہ کیوں ترے منہ پر جو مجھ پہ گزرے ہے
مجھے یہ باک سا تجھ سے حجاب سا کیا ہے
ہوئی نہ سیر کہیں بھی مری عمق نظری
مری نظر سے گزرتا یہ خواب سا کیا ہے
ملا ہے جو بھی رُتوں سے، پڑے گا لوٹانا
نمو طلب تھے تو اب سے پیچ و تاب سا کیا ہے
قرارِ جاں ہے تو ماجدؔ اُسے تلاش بھی کر
حصولِ یار سے یہ اجتناب سا کیا ہے
ماجد صدیقی

کیوں چَین تجھے اے دلِ بے تاب! نہ آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
ٹھہراؤ کہیں صورتِ سیماب نہ آئے
کیوں چَین تجھے اے دلِ بے تاب! نہ آئے
شکوہ جو سرِ اشک ہے لفظوں میں نہ ڈھالو
کائی کہ جو تہہ میں ہے، سرِآب نہ آئے
کیا لفظ تھے ہم اور غلط العام ہوئے کیا
کوئی بھی لگانے جِنہیں اعراب نہ آئے
وہ غار نشیں ہم ہیں تصوّر میں بھی جن کے
بہروپ میں جگنو کے بھی مہتاب نہ آئے
رفعت جو ذرا سر کے جھکانے سے دلائیں
ماجد تمہی اب تک، وہی آداب نہ آئے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑