تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

بن

زیبِ تن جوڑا کفن ہونے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 153
میں وطن میں بے وطن ہونے لگا
زیبِ تن جوڑا کفن ہونے لگا
نام پر جس کے خزانے بھر چلے
خونِ انسانی بھی دَھن ہونے لگا
دورِ نَو میں خوب کیا ناخوب کیا
اسلحے کی کاٹ، فن ہونے لگا
جبر سے اُگ آئِیں خیمہ بستیاں
شہر سا آباد بن ہونے لگا
جانے کیوں اپنوں کے ہاتھوں حشرزا
اپنے حصے کا گگن ہونے لگا
تُندِیاں پا کر ہوائے دہر میں
تلخ تر ماجد سخن ہونے لگا
شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے حوالے سے
ماجد صدیقی

سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
گرد ہی گرد پیرہن ہے مرا
سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا
پیرہن میں یہیں بہاروں کا
اور عریاں یہیں بدن ہے مرا
شاخِ پیوستۂ شجر ہوں ابھی
سارے موسم مرے، چمن ہے مرا
وار سہہ کر خموش ہوں ماجدؔ
ہاں یہی تو جیالا پن ہے مرا
ماجد صدیقی

وہ شوخ میری تمّنا کا پیرہن نہ ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
خیال ہی میں رہا، زینتِ بدن نہ ہوا
وہ شوخ میری تمّنا کا پیرہن نہ ہوا
میانِ معرکہ نکلے ہیں مستِ ساز جو ہم
طوائفوں کا ہُوا مشغلہ، یہ رَن نہ ہُوا
نہ تھا قبول جو اُس کی نگاہ سے گرنا
بہم ہمیں کوئی پیرایۂ سخن نہ ہُوا
لُٹے شجر تو دِفینوں پہ کی گزر اِس نے
یہ دل زمینِ چمن تھا اجاڑ بن نہ ہُوا
تھا جیسی شاخ پہ اصرار بیٹھنے کو اُسے
نظر میں اپنی ہی پیدا وہ بانکپن نہ ہُوا
ہمیں وُہ لفظ ہے ماجدؔ مثالِ برگِ علیل
لبوں سے پھُوٹ کے جو زیبِ انجمن نہ ہوا
ماجد صدیقی

اُتری ہے چاند تک میں ترے پیرہن کی باس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
آ دیکھ گُل بہ گُل ہے ترے تن بدن کی باس
اُتری ہے چاند تک میں ترے پیرہن کی باس
گل جس طرح رہے ہوں کبھی ہم نشینِخاک
مجھ میں بھی اِس طرح کی ہے تجھ سے ملن کی باس
ہاں ہاں مجھے جلائے جو تیرے فراق میں
ہر رگ میں جاگزیں ہے اُسی اِک اگن کی باس
یوں اب کے اشک یاد میں تیری بہا کیے
بارش برس کے عام کرے جیسے بن کی باس
کھٹکا یہی تو تجھ سے مجھے ابتدا سے تھا
جانا ں!تجھے بھی کھینچ نہ لے جائے دَھن کی باس
ماجد صدیقی

جیسے ہربات میں ہو تیرے بدن کی خوشبو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 123
لفظ در لفظ ہے یُوں اب کے سخن کی خوشبو
جیسے ہربات میں ہو تیرے بدن کی خوشبو
اذن کی آنچ سے بے ساختہ دہکے ہوئے گال
جسم امڈی ہوئی جس طرح چمن کی خوشبو
نقش ہے یاد پہ ٹھہرے ہوئے ہالے کی طرح
وصل کے چاند کی اک ایک کرن کی خوشبو
گلشنِ تن سے ترے لوٹ کے بھی ساتھ رہی
کُنج در کُنج تھی کیا سرو و سمن کی خوشبو
تجھ سے دوری تھی کچھ اس طرح کی فاقہ مستی
جیسے مُدّت سے نہ آئے کبھی اَن کی خوشبو
ذکرِ جاناں سے ہے وُہ فکر کا عالم ماجدؔ!
جیسے آغاز میں باراں کے ہو بن کی خوشبو
ماجد صدیقی

چِڑا رہے ہیں مرا منہ، مرے سخن کے گلاب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
شرف مآب ہوئے سے جب سے مکر و فن کے گلاب
چِڑا رہے ہیں مرا منہ، مرے سخن کے گلاب
بناتِ شہر کی پژمردگی وہ کیا جانے
بہم ہر آن جسے ہوں، بدن بدن کے گلاب
ملے نہ جس کا کہیں بھی ضمیر سے رشتہ
گراں بہا ہیں اُسی فکرِ پر فتن کے گلاب
سخن میں جس کے بھی اُمڈی ریا کی صنّاعی
ہر ایک سمت سے برسے اُسی پہ دَھن کے گلاب
یہاں جو قصر نشیں ہے، یہ جان لے کہ اُسے
نظر نہ آئیں گے ماجد، تجھ ایسے بن کے گلاب
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑