تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

بازار

اور پیرایہ نہ تھا اظہار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
ترجماں لرزہ تھا بس بیمار کا
اور پیرایہ نہ تھا اظہار کا
یہ چلن اب نِت کا ہے، اخبار کا
اِک نہ اِک لائے بگولہ نار کا
استطاعت ہو تو پڑھ لو ہر کہیں
رُخ بہ رُخ اِک نرخ ہے بازار کا
تاب کیا کیا دے گیا ابلیس کو
اِک ذرا سا حوصلہ انکار کا
ہم کہ ہیں ہر پل سکوں نا آشنا
ہے یہ فتنہ دیدۂ بیدار کا
ہو سخن ماجِد کا یا خلقِ خُدا
حال مندا ہے ہر اِک شہکار کا
ماجد صدیقی

پہلے سے بھی بڑھ کر کہیں بیزار کرے ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
جو شخص بھی ہم سے کوئی اقرار کرے ہے
پہلے سے بھی بڑھ کر کہیں بیزار کرے ہے
وُہ سُود بھی ذمّے ہے ہمارے کہ طلب جو
درباں تری دہلیز کا ہر بار کرے ہے
ممکن ہی کہاں بطن سے وُہ رات کے پھُوٹے
چہروں کو خبر جو سحرآثار کرے ہے
دیتے ہیں جِسے آپ فقط نام سخن کا
گولہ یہ بڑی دُور تلک مار کرے ہے
ہر چاپ پہ اٹُھ کر وُہ بدن اپنا سنبھالے
کیا خوف نہ جانے اُسے بیدار کرے ہے
پہنچائے نہ زک اور تو کوئی بھی کسی کو
رُسوا وُہ ذرا سا سرِ بازار کرے ہے
کس زعم میں ماجدؔ سرِ دربار ہمیں تُو
حق بات اگلوا کے گنہگار کرے ہے
ماجد صدیقی

دل اٹھا لائے سرِ بازار ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 112
کیا دکھاتے اور حالِ زار ہم
دل اٹھا لائے سرِ بازار ہم
ہر سفر ہے اب تو ہجرت کا سفر
تھے کبھی اِس شہر میں انصار ہم
دل سے دل کو راہ اب ہوتی نہیں
بھولتے جاتے ہیں سب اقدار ہم
حرف و معنی بیچنے پر آ گئے
یوں بھی اب ہونے لگے زردار ہم
منتقل کر لائے اک اک سانس میں
جس میں الجھے تھے وہی منجدھار ہم
ڈھل چکی جب چودھویں کی رات بھی
کیوں نہ ہوں ماجدؔ، زوال آثار ہم
ماجد صدیقی

ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
ہونٹوں پہ نہ لائیں یہ سخن ’’یار ہے کیسا‘‘
ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا
نیلام تو اُٹھ لے ابھی کھل جائے گا سب کچھ
ہم کون ہیں اور مصر کا بازار ہے کیسا
بھّٹی میں شراروں کی چمن سینچ رہا ہے
اس دور کا انسان بھی بیدار ہے کیسا
انصاف کی میزان کا بَل خود یہ بتائے
عشّاق کا احوال سرِ دار ہے کیسا
ایقان ہی جب اُن پہ تمہارا نہیں ماجدؔ
پھر کرب و الم کا تمہیں اقرار ہے کیسا
ماجد صدیقی

اُمیدوں کی ٹھِٹھڑی کُونجیں کون سے دیس سُدھار چلیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ایک ذرا سی رُت بدلی تو سب کی سب اُس پار چلیں
اُمیدوں کی ٹھِٹھڑی کُونجیں کون سے دیس سُدھار چلیں
لے جائے کس اور نجانے عمر یہ بھُول بھلّیوں کی
کہنے کو کچھ دوشیزائیں مل کر ہیں بازار چلیں
ظاہر میں میدان سکوں کا جو اِس دل کے ہاتھ رہا
ٹِک ٹِک شور مچاتی گھڑیاں وُہ میدان بھی مار چلیں
ہر حیلہ ناکام رہا بیمار کی جان بچانے کو
چلنے کو تو رُک رُک جاتی سانسیں سو سو بار چلیں
جی داری کے فیض سے زندہ ہیں ورنہ ہر آنگن سے
طعن کی کیا کیا کنکریاں ہم پر بھی ماجدؔ یار چلیں
ماجد صدیقی

مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
یہ اضافہ بھی ہُوا ماں باپ کے آزار میں
مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں
آبلہ پائی نے کر دی ہے مسافت یوں تمام
پیر چپکے رہ گئے ہیں جادۂ پر خار میں
تن بدن سے کھال تک جیسے ادھڑ جانے لگے
جیب ہی ہلکی نہیں ہوتی ہے اب بازار میں
سخت مشکل ہے کوئی تریاق اُس کا مِل سکے
زہر جو شامل ملے، ذی جاہ کے انکار میں
خلق ناداری کے ہاتھوں جان دینے پر مصر
اور زر کی بانٹ کے جھگڑے ادھر دربار میں
کیا کہیں ہر آن ماجد مضطرب، پڑنے کو ہیں
سنگ ریزے کیا سے کیا ہر دیدۂ بیدار میں
ماجد صدیقی

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے
لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے
لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں
چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے
کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سو
اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے
چوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے
کر چکے ایکا سبھی زر دار، میرے شہر کے
مکر کیا کیا لوریاں ماجد اُنہیں دینے لگا
لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے
ماجد صدیقی

ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
تھا میّسر ہی نہ پیرایۂ اظہار ہمیں
ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں
کن بگولوں کے حصاروں میں کھڑے دیکھتے ہیں
اَب کے پت جھڑ میں سلگتے ہوئے گلزار ہمیں
وقت بدلا ہے تو گوشوں میں چُھپے بیٹھے ہیں
وہ جو کرتے رہے رُسوا سرِ بازار ہمیں
کل تھا کس رنگ میں اور آج سرِ بزمِ وفا
کیا نظر آیا ہے وہ حُسنِ طرح دار ہمیں
کب سے دیتا ہے صدا کوئی پری وش ماجدؔ
عنبر و عود لٹاتے ہوئے اُس پار ہمیں
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑