تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

اژدر

ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 202
جگہ جگہ آنکھوں میں چُبھتے منظر ہیں
ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں
گُن جتلاتے ہیں کیوں ہم، آقاؤں سے
ہم جو حلقہ بگوشی ہی کے خُوگر ہیں
خودی کمائی ہے کیا؟چھینا جھپٹی سے
اوج نشینوں نے، جو سارے خود سر ہیں
عدل گہوں پر بھی ہے گماں زندانوں کا
عادل تک بھی جہاں کے اسیرانِ زر ہیں
نرخوں اور رویّوں تک میں دہشت کے
چُھپے ہُوئے کیا کیا پُھنکارتے اژدر ہیں
کب سے چِھنی ہے اِن سے جانے خوش خُلقی
شہر شہر کیونکر اُجڑے، بستے گھر ہیں
کانوں میں تو گُونج صدائے فلاح کی ہے
حال ہمارے ہی ماجد کیوں ابتر ہیں
ماجد صدیقی

اور ہے جو رہبروں کا غول ہے باہر کہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 125
ڈِیل آقاؤں سے کرتے جو کہے اندر کہے
اور ہے جو رہبروں کا غول ہے باہر کہے
ناگ اپنے درمیاں کے، سیر ہو کر جو کہیں
بعد چڑیوں کے نگلنے کے وُہی اژدر کہے
یہ سفر کرنے کو ملتا ہے بھلا کب بار بار
زندگانی کے سفر کو دل کہاں دُوبھر کہے
ہاں یہی دنیا ہمیں پوجے گی اک دن دیکھنا
آج ہم سے حق پرستوں کو جو ہے خودسرکہے
آدمی اُس کا کہا گر مان لے تو خوب ہے
وقت کوئی درس بھی کرنے کو جب ازبر کہے
اپنی ڈِکشن ہو مگر جو ہو پتے کی بات ہو
میں کہوں یا سعدیہ یا بات وہ یاور کہے
ریل پیل اِسکی نہ شاہوں کے یہاں بھی ہو سکے
جگ جسے فتنہ کہے ماجد جسے تُو زر کہے
ماجد صدیقی

ڈنک چبھو کر جیسے اژدر بھُول گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
کرنی کر کے ہے یوں آمر بھُول گیا
ڈنک چبھو کر جیسے اژدر بھُول گیا
جان پہ سچ مچ کی بن آتی دیکھی تو
جتنی شجاعت تھی شیرِ نر بھُول گیا
خلق سے خالق کٹ سا گیا ہے یُوں جیسے
اپنے تراشیدہ بُت آذر بھُول گیا
دُھوپ سے جھُلسے ننگے سر جب دیکھے تو
خوف کے مارے شاہ بھی افسر بھُول گیا
گزرے دنوں کی سنُدر یاد کی آمد کو
چھوڑ کے جیسے دل یہ، کھُلے در بھُول گیا
جسم پہ جمتی گرد ہی شاید بتلائے
وقت ہمیں کس طاق میں رکھ کر بھُول گیا
اُس کی سرونُما قامت ہے یا ماجدؔ
چھیڑ کے تان کوئی نغمہ گر بھُول گیا
ماجد صدیقی

جو گل بھی ہے چمن میں وہ پتّھر دکھائی دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
جانے یہ کس کے سحر کا منظر دکھائی دے
جو گل بھی ہے چمن میں وہ پتّھر دکھائی دے
کیسی یہ لو چلی کہ سرِ دستِ آرزو
اٹھتی ہے جو بھی لہر وہ اژدر دکھائی دے
کھودے اُسی کے پیروں تلے کی زمین وہ
جس کم نگاہ کو کوئی ہم سر دکھائی دے
ایسا ہے کون بت نہ تراشے جو حرص کے
دیکھا ہے جس کسی کو وہ آذر دکھائی دے
محبوس تیتروں پہ جو بلّی کو ہے نصیب
وہ جبرِ ناروا اُسے کیونکر دکھائی دے
ماجدؔ جسے بھلائیں گل و مہ کو دیکھ کر
چہرہ وہ صبح و شام برابر دکھائی دے
ماجد صدیقی

ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
تلاطم بحر کا آ کر نہ دیکھا
ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا
کسی کے ہجر کا اب ہے جو، ایسا
کوئی بھی مرحلہ دُوبھر نہ دیکھا
ملا جیسے وہ اب کے، جان و دل پر
کھُلا جنّت کا ایسا در نہ دیکھا
نگل لیتا ہے جاں جس آن چاہے
زمانے سا کوئی اژدر نہ دیکھا
کبھی تھے چہچہے جس گھونسلے میں
ہُوا پھر یُوں، وہاں اِک پر نہ دیکھا
گھِرا ہے اَب کے یہ ژالوں میں جیسے
چمن کا حال یوں ابتر نہ دیکھا
خود اُس پر ختم ہے ماجدؔ ہنر یہ
گیا جس سے فنِ آذر نہ دیکھا
ماجد صدیقی

مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
جب بھی دیکھوں یہ فلک، اَبر ہٹا کر دیکھوں
مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں
گلشنِ حُسن پہ ہو راج اِسی کا جیسے
ان دنوں مرغِ طلب کو وُہ لگے پر دیکھوں
اوج کے لمس سے پہنچوں بہ سرِ چشمۂ لُطف
پر جو اِیدھر سے اُتر پاؤں تو اُودھر دیکھوں
میری حیرت سے کھلے تُجھ پہ ترا حُسن مگر
آئنوں سا میں جبھی تُجھ کو برابر دیکھوں
لب پہ رقصاں ہے مرے، ہے جو پسِ چشم اُدھر
اِس شرارت میں بپا کتنے ہی محشر دیکھوں
بِین سا سامنے جس کے ترا پیکر گونجے
خواب میں بھی ترے آنگن میں وہ اژدر دیکھوں
شعبدہ ہے، کہ تقاضا یہ تری دید کا ہے
ہر بُنِ مُو میں سمائے ہوئے اخگر دیکھوں
اِک لب و چشم تو کیا اِن کے سوا بھی ماجدؔ
جذبۂ شوق کے کیا کیا نہ کھلے در دیکھوں
ماجد صدیقی

اور بچّوں کے ہاتھ میں پتّھر کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
ننگے سچ کے لفظ زباں پر کیا کیا تھے
اور بچّوں کے ہاتھ میں پتّھر کیا کیا تھے
چھو ڈالیں تو پھول کہیں تحلیل نہ ہو
پہلے پہل کے عشق کے بھی ڈر کیا کیا تھے
پیروں میں جب کوئی بھی زنجیر نہ تھی
ان وقتوں میں ہم بھی خودسر کیا کیا تھے
دُور نشیمن سے برسے جو مسافت میں
ژالے تن پر سہنے دُوبھر کیا کیا تھے
حرص کی بین پہ کھنچ کر نکلے تو یہ کھُلا
دیش پٹاری میں بھی اژدر کیا کیا تھے
جھانکا اور پھر لوٹ نہ پائے ہم جس سے
اُس آنگن کے بام تھے کیا در کیا کیا تھے
طاق تھے ماجدؔ تاج محل بنوانے میں
اپنے ہاں بھی دیکھ! اکابر کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

ہمیں اس نے کبھی ہمسر نہ جانا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
زرِ گل تھے بھی گر تو زر نہ جانا
ہمیں اس نے کبھی ہمسر نہ جانا
جبیں جس پر جھکائی عرش جیسی
ہمارا مرتبہ وُہ در نہ جانا
گھُلی چیخیں بھی ہیں لقموں میں اُس کے
یہ باریکی کوئی اژدر نہ جانا
سزا کے سارے تیور تھے اُسی میں
ہوا کو ہم نے نامہ بر نہ جانا
ذرا مّکے گیا تو جانے ہم نے
خرِ عیسٰی کو کیونکر خر نہ جانا
نہیں اتنا بھی سادہ لوح ماجدؔ
اُسے جانا ہے تم نے پر نہ جانا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑