تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

اٹھان

ہزار نیک سہی کم ہیں پر جہان میں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
بڑے بھی ہیں تو فقط وہم میں گمان میں ہم
ہزار نیک سہی کم ہیں پر جہان میں ہم
توہمات، تمنّائیں اور بے عملی
بسائے رکھتے ہیں کیا کیا یہ قلب و جان میں ہم
پھر اُس کے بعد تھکن اور خواب خرگوشی
دکھائیں تیزیاں کیا کیا نہ ہر اُٹھان میں ہم
نظر میں رکھیے گا صاحب ہمارے تیور بھی
بہت ہی رکھتے ہیں شیرینیاں زبان میں ہم
یہ ہم کہ سبز جزیرہ ہیں بیچ دریا کے
ہیں کتنے سیربس اِتنی سی آن بان میں ہم
کوئی نہیں جو ہم میں سے اتنا سوچ سکے
تنے ہوئے ہیں ہمہ وقت کیوں کمان میں ہم
سخن میں صنفِ غزل جس کا نام ہے ماجد
ہیں محو و مست اِسی اِک سریلی تان میں ہم
ماجد صدیقی

ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کھٹکا ہے یہ، کسی بھی پھسلتی چٹان پر
ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پر
جیسے ہرن کی ناف ہتھیلی پہ آ گئی
کیا نام تھا، سجا تھا کبھی، جو زبان پر
چاہے جو شکل بھی وہ، بناتا ہے اِن دنوں
لوہا تپا کے اور اُسے لا کے سان پر
اُس پر گمانِ مکر ہے اب یہ بھی ہو چلا
تھگلی نہ ٹانک دے وہ کہیں آسمان پر
یک بارگی بدن جو پروتا چلا گیا
ایسا بھی ایک تیر چڑھا تھا کمان پر
تاریخ میں نہ تھی وہی تحریر ، لازوال
جو خون رہ گیا تھا عَلَم پر، نشان پر
ماجدؔ ہلے شجر تو یقیں میں بدل گیا
جو وسوسہ تھا سیلِ رواں کی اٹھان پر
ماجد صدیقی

میں وقت کو دان دے رہا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
جذبوں کو زبان دے ر ہا ہوں
میں وقت کو دان دے رہا ہوں
موسم نے شجر پہ لکھ دیا کیا
ہر حرف پہ جان دے رہا ہوں
یوں ہے نمِ خاک بن کے جیسے
فصلوں کو اُٹھان دے رہا ہوں
جو جو بھی خمیدہ سر ہیں اُن کے
ہاتھوں میں کمان دے رہا ہوں
کیسی حدِ جبر ہے یہ جس پر
بے وقت اذان دے رہا ہوں
اوقات مری یہی ہے ماجد
ہاری ہوں لگان دے رہا ہوں
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑