ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
جگہ جگہ غربت کے، مہنگائی کے، اژدر دیکھوں میں
شہروں شہروں، گاؤں گاؤں کیا کیا منظر دیکھوں میں
جن جن کے ابّ و جد نے بھی اُلٹے پیچ لڑائے تھے
جاہ و جلال کی کرسی پر ایسے ہی افسر دیکھوں میں
اپنے یہاں پھیلائیں نہ کیوں؟ ضَو عقل کی دوسری دنیا سی
اپنے مخالف، اپنے بَیری، یوں مہ و اختردیکھوں میں
مکھیوں مکڑیوں سی مخلوق جہاں ہو نامِ رعایا پر
جُھکنا اُن کی فطرتِ ثانی بنتے برابر دیکھوں میں
لوٹ کھسوٹ کی خاطر بازاروں میں مراتھن ریس لگے
جس میں شامل لوگ نہ کیا کیا کہتر و مہتر دیکھوں میں
جیسے لاوارث بچّوں کا ورثہ اُن کے بڑوں میں بٹے
راج راج کے گِدھ ٹولوں میں بٹتے یوں زر دیکھوں میں
پھیلائے جو اپنوں اور غیروں نے نئے اندیشوں کے
شام سویرے پیروں تلے ماجِد وہ اخگر دیکھوں میں
ماجد صدیقی