ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 169
ہاں جو فرعون تھا خُدا نہ ہُوا
جبر ہم پر وگرنہ کیا نہ ہُوا
شرم کیا کیا دلائی شیطاں کو
ٹس سے مس وہ مگر ذرا نہ ہُوا
جیسا مینار بھی بنا ڈالو
وہ کبھی زیر آشنا نہ ہُوا
ماں چِھنی، ماں کی گود سے لیکن
کوئی بچّہ کبھی جُدا نہ ہُوا
رونا دھونا سدا کا کارِ ثواب
لب کِھلانا مگر روا نہ ہُوا
ساتھ تھا اُس کا محض دریا تک
بادباں سر کا آسرا نہ ہُوا
خود سے ہر چھیڑ لی سبک اُس نے
تھا غنی، ہم سے وہ خفا نہ ہُوا
جب بھی اُترا ہمارے انگناں وہ
تیرہواں روز چاند کا نہ ہُوا
جام ہونٹوں پہ رکھ کے کچھ تو اُنڈیل
یوں تو کچھ قرضِ مے ادا نہ ہُوا
آکے بانہوں میں یُوں نہ زُود نکل
یہ تو عاشق کا کچھ صِلا نہ ہُوا
مجھ سے حاسد نہ چھین پائے تجھے
ماس ناخون سے جدا نہ ہُوا
تھا جو چاقو قریبِ خربوزہ
وار اُس کا کبھی خطا نہ ہُوا
اُس سے جو جوڑ تھا نہ ماجد کا
کھنچ گیا گر تو کچھ بُرا نہ ہُوا
ماجد صدیقی