تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

اترنے

کیا ہے ضرورت ڈرنے کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 107
اپنے کیے سے مکرنے کی
کیا ہے ضرورت ڈرنے کی
چھینیں تخت جھِپَٹّے سے
اُف یہ حرص اُبھرنے کی
عید کا چندا کہتا ہے
ساعت ہے یہ سنورنے کی
بوڑھے، بیتے دن ڈھونڈیں
رُت آئی ہے نکھرنے کی
دھج سے جیے تو انساں کو
چِنتا ہو کیوں مرنے کی
بچپن ہی سے دُھن ہے ہمیں
پاتالوں میں اُترنے کی
ہاں ہاں تیرا سخن ماجد!
لَے ہے سریلی، جھرنے کی
ماجد صدیقی

رنج سا اِک نظر میں اُبھرنے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
جب بھی موسم ذرا سا نکھرنے لگا
رنج سا اِک نظر میں اُبھرنے لگا
آنکھ میں پھر کسی یاد کا عکس ہے
چاند ہے جھیل میں پھر اُترنے لگا
ہم اُسے کس طرح معتبر جان لیں
بات تک سے جو اپنی مُکرنے لگا
وحشتوں کی سکڑتی حدیں دیکھ کر
شیر پنجرے میں از خود سدھرنے لگا
آئنے پر جو دل کے لگے بال سا
زخم ماجدؔ کہاں ہے وُہ بھرنے لگا
ماجد صدیقی

آنکھ میں اک نمی سی اُبھرنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
اب کے اُمید یُوں بھی نکھرنے لگی
آنکھ میں اک نمی سی اُبھرنے لگی
یہ اثر بھی ہے شاید مری آہ کا
آسماں سے بھی ہے آگ اُترنے لگی
خود تو اُجڑا مگر جس پہ تھا گھونسلا
شاخ تک وہ شجر پر بکھرنے لگی
نسلِ آدم ہوئی سنگ دل اور بھی
جب سے پاؤں سرِ ماہ دھرنے لگی
پیڑ کو جو سزا بھی ہوئی، ہو گئی
رُت کہاں اُس میں تخفیف کرنے لگی
کچھ دنوں سے ہے وہ سہم سا رُوح میں
سانپ سے جیسے چڑیا ہو ڈرنے لگی
یہ بھی دن ہیں کہ اَب اُس کے دیدار کی
بھوک بھی جیسے ماجدؔ ہے مرنے لگی
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑